اسلام آباد میں منعقدہ دوسرے پاکستان پائیداری سمٹ اینڈ ایوارڈز کے افتتاحی نشست میں سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ روایتی تعمیراتی طریقے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادکاری ماحولیاتی آلودگی اور کاربن اخراج میں خطرناک اضافہ کر رہی ہیں اور اس منظر نامے میں پائیدار تعمیرات کو فوری ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک پہلے ہی گرین بلڈنگ کوڈز رکھتا ہے مگر ان پر عملدرآمد کمزور ہے، اور 2025 کے کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔سینیٹر نے واضح کیا کہ ملکی صنعتی شعبہ توانائی سے متعلق کاربن اخراج کا 38 فیصد ذمہ دار ہے جبکہ سیمنٹ کی صنعت اکیلے 49 فیصد اخراج کرتی ہے، اس لیے تعمیراتی شعبے کو پائیداری کے اصولوں کی جانب منتقل کرنا ناگزیر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ملک کی 39 فیصد آبادی شہری ہے اور – علاقوں کو شامل کرنے پر یہ شرح 88 فیصد تک پہنچ جاتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیز رفتار شہری آبادکاری بہتر اور موسمیاتی تقاضوں کے مطابق منصوبہ بندی کی متقاضی ہے۔2022 اور 2025 کے تباہ کن سیلابوں کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ کمزور ساخت اور غلط مقامات پر بنائی گئی عمارتیں لمحوں میں تباہ ہو گئیں اور اس سوال کو اٹھایا کہ ایسی تعمیرات کی اجازت کیوں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نجی شعبہ اب بھی خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا لہٰذا حکومت کو مضبوط، لچکدار اور محفوظ انفراسٹرکچر کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ مستقبل میں انسانی و مالی نقصانات کم سے کم ہوں۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ کمیونیکیشنز نیٹ ورک ڈیوکام پاکستان سید منیر احمد نے بتایا کہ ملک میں سالانہ چار لاکھ گھروں کی کمی ہے جبکہ 40 فیصد شہری آبادی غیر رسمی بستیوں میں رہتی ہے جہاں بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ نہ صرف معیشت میں اہم ہیں بلکہ وہ قدرتی وسائل اور توانائی کے بڑے صارف بھی ہیں، اس لیے پائیدار تعمیرات اور مربوط پالیسی سازی ناگزیر ہے تاکہ رہائشی بحران کا پائیدار حل ممکن ہو سکے۔صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سردار طاہر محمود نے کہا کہ پائیدار رہائش کے لیے شفاف اور نتیجہ خیز پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس، جدید اور موسمیاتی تقاضوں کے مطابق شہری منصوبہ بندی، اور اقوامِ متحدہ ہیبی ٹیٹ کی سفارشات کے مطابق کلائمیٹ ریسپانسیو ڈیویلپمنٹ ماڈلز ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر پالیسی اور نجی شعبے کے درمیان مربوط اشتراک مضبوط کیا جائے تو اسلام آباد ایک خطے کی مثال بن سکتا ہے۔چیف ایگزیکٹو پی آئی ڈی سی ایل وسیم حیات باجوہ نے بتایا کہ وزارتِ ہاؤسنگ پائیدار رہائشی ڈھانچے کو قومی سطح پر لانے کے لیے مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس میں موسمیاتی لچکدار تعمیرات، توانائی کے مؤثر بلڈنگ معیارات اور کم لاگت گرین ہاؤسنگ ماڈلز شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پی آئی ڈی سی ایل پالیسی سازی اور نفاذ کے ہر مرحلے میں پائیداری کو یقینی بنا رہا ہے۔اقوامِ متحدہ ہیبی ٹیٹ پاکستان کے ڈپٹی پروگرام مینیجر حمید ممتاز خان نے کہا کہ 2005 سے اب تک 45 لاکھ گھر متاثر ہو چکے ہیں اور نو ارب ڈالر سے زائد نقصان ہو چکا ہے، لہٰذا ملک کو ہنگامی بنیادوں پر کلائمیٹ اسمارٹ ہاؤسنگ، بہتر بلڈنگ پرفارمنس، نیشنل ہاؤسنگ پالیسی 2025 کے نفاذ، فطری حل اور پانی کے مؤثر استعمال کی طرف جانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ یہ سمٹ پاکستان کے لیے پائیدار، محفوظ اور لچکدار شہری مستقبل کی سمت اہم رہنمائی فراہم کرے گا اور پائیدار تعمیرات کو عام کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
