اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں ہیلتھ سروسز اکیڈمی نے چھاتی کینسر کی بڑھتی ہوئی وجہات اور بچاؤ کے طریقوں پر مفصل گفتگو کی اور قومی سطح پر پالیسی سازی کی فوری ضرورت اجاگر کی۔ یہ پروگرام انتظامی اور طبی نقطۂ نظر دونوں سے مسئلے کا جامع جائزہ پیش کرنے کا موقع بنا۔پروفیسر ڈاکٹر شاہزاد علی خان نے ادارے کی ذمہ داری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کا فرض صرف شعور بیدار کرنا نہیں بلکہ شواہد کو پالیسی میں منتقل کرانا بھی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اکیڈمی اپنی ساکھ اور پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ساختی اصلاحات کے لیے آواز اٹھائے گی تاکہ خواتین اور صحت کے نظام پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔پروفیسر ڈاکٹر جنید سرفراز نے بھی اسی عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی کی کوششیں عملی تبدیلی میں بدلنی چاہئیں۔ وہ قابل اعتماد شواہد کی بنیاد پر وکالت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نئے اقدامات کے ذریعے خواتین کے لیے بہتر، مساوی صحت کے امکانات پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں۔طبی ماہرین نے فردی احتیاط اور نظامی اصلاحات کے درمیان توازن پر زور دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ نعیم خالد نے خواتین کو اپنی صحت کے ذمہ دار بننے کی ترغیب دی اور خود معائنہ کرنے کی اہمیت واضح کی۔ انہوں نے خطرے کے اہم عوامل کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ دودھ پلانے کا عمل چھاتی کینسر کے خلاف حفاظتی عنصر ہے اور افسوس کے ساتھ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں صرف 48 فیصد خواتین دودھ پلانے کی روایت برقرار رکھتی ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر مریم سرفراز نے نظامی خلا پر سخت تنقید کی اور کہا کہ قومی سطح پر اسکریننگ پالیسی نہ ہونے اور کینسر رجسٹری کی عدم موجودگی ہمیں ایک سایہ دار دشمن کے خلاف لڑنے جیسا بنا دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک قابلِ اعتماد ڈیٹا دستیاب نہیں ہوگا، وسائل کی مؤثر تقسیم اور مسئلے کے دائرے کا درست اندازہ ممکن نہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے دو غیر متنازعہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا: فوری طور پر قومی پالیسی کی تشکیل اور ہر ضلعی ہسپتال میں میموگرافی اور بائیوپسی جیسی تشخیصی سہولیات کو لازمی قرار دینا۔ ان کے بقول اس بنیادی ڈھانچے کے بغیر شعور اور ابتدائی شناخت کی مہمات زیادہ تر خواتین کے لیے ناکافی ثابت ہوں گی۔تقریب میں یہ بات واضح ہوئی کہ چھاتی کینسر کے خلاف مؤثر مہم کے لیے فردی شعور اور مضبوط، جوابدہ صحت کا نظام دونوں ایک ساتھ درکار ہیں۔ اکیڈمی نے شواہد کی بنیاد پر وکالت جاری رکھنے اور پالیسی سازوں تک سفارشات پہنچانے کا عزم دہرایا تاکہ مستقبل میں خواتین کی صحت بہتر اور مساوی بنائی جا سکے۔
