خواتین کے جائیداد کے حقوق پر خصوصی کمیٹی کا اظہار برہمی — نامکمل ریکارڈ، غیر مؤثر قوانین اور سماجی رکاوٹوں کی نشاندہی

7 Min Read

خواتین کے جائیداد کے حقوق پر خصوصی کمیٹی کا اظہار برہمی — نامکمل ریکارڈ، غیر مؤثر قوانین اور سماجی رکاوٹوں کی نشاندہی
ندیم تنولی

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے جینڈر مین اسٹریمِنگ نے پاکستان میں خواتین کے جائیداد کے حقوق سے متعلق گہرے ادارہ جاتی، قانونی اور سماجی مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نامکمل اعداد و شمار، کمزور قوانین اور معاشرتی دباؤ خواتین کو ان کے وراثتی حق سے محروم رکھتے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں خواتین کی جائیداد سے متعلق حقائق کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جس سے واضح ہوا کہ ملک میں مستند معلومات کی کمی، قانون کے ناقص نفاذ اور روایتی رویوں نے خواتین کے مالی خودمختاری کے امکانات کو سخت متاثر کیا ہے۔

اجلاس کا آغاز غیر مستند اور نامکمل ڈیٹا پر بحث سے ہوا۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹِسٹکس (PBS) نے 2019-20 کے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ (PSLM) سروے کے اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق ملک کی صرف 2.5 فیصد رہائش گاہیں مکمل طور پر خواتین کی ملکیت میں ہیں جبکہ 7.5 فیصد مکانات مرد و خواتین کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ کمیٹی کی رکن ایم این اے سعدیہ عباسی نے ان اعداد و شمار کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سروے وراثت سے حاصل شدہ جائیداد کو شامل نہیں کرتا، جو خواتین کی ملکیت کے سب سے اہم ذرائع میں سے ایک ہے۔

کمیٹی نے اس بات پر بھی شدید تشویش ظاہر کی کہ PBS کے اعداد و شمار اور انتظامی اداروں کے ریکارڈ میں نمایاں تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر PBS نے خواتین کے بینک اکاؤنٹس کی شرح 8.43 فیصد بتائی، جبکہ اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ شرح 37 فیصد ہے۔ ارکان نے کہا کہ یہ تضاد سروے پر مبنی ڈیٹا کے ناقابلِ اعتماد ہونے کا ثبوت ہے اور حقیقی معلومات کے لیے انتظامی ریکارڈ کو اپنایا جانا ضروری ہے۔

کمیٹی نے صوبہ سندھ اور پنجاب کے اعداد و شمار کا بھی جائزہ لیا۔ سندھ کے بورڈ آف ریونیو کے سیکریٹری نے لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ ریونیو مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (LARMIS) کے تحت جمع شدہ ڈیٹا پیش کیا جس کے مطابق صوبے میں 69 لاکھ 70 ہزار رجسٹرڈ زمین مالکان میں سے 12 لاکھ 50 ہزار خواتین ہیں — یعنی 21 فیصد۔ اگرچہ یہ شرح حوصلہ افزا ہے، تاہم یہ صرف دیہی زمینوں سے متعلق ہے اور شہری جائیدادیں اس میں شامل نہیں۔

کمیٹی نے سندھ حکومت کی اس اسکیم کو سراہا جس کے تحت سیلاب متاثرہ خاندانوں کے لیے تعمیر کی جانے والی 20 لاکھ گھروں کی ملکیت خواتین کے نام پر دی جا رہی ہے — جسے خواتین کے مالی بااختیار بنانے کی سمت ایک بڑا قدم قرار دیا گیا۔ دوسری جانب پنجاب بورڈ آف ریونیو اپنے اعداد و شمار پیش نہ کر سکا اور مختصر نوٹس کو وجہ بتایا، تاہم یقین دہانی کرائی کہ صوبے کے ڈیجیٹل ریکارڈ سے درست اعداد و شمار ایک ہفتے میں فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

اجلاس میں خواتین کے جائیداد کے حقوق سے متعلق قانونی اور عملی رکاوٹوں پر بھی تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ پنجاب میں 2021 میں نافذ کردہ ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ کے تحت 5 ہزار سے زائد شکایات نمٹائی گئیں اور تقریباً 6 ہزار کنال زمین خواتین کے حوالے کی گئی۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے اس قانون کو ’’عدالتی دائرہ اختیار سے تجاوز‘‘ قرار دے کر معطل کر دیا، جس کے نتیجے میں تمام کارروائیاں روک دی گئیں۔

ایم این اے سعدیہ عباسی نے نادرا کے وراثتی سرٹیفیکیٹ کے نظام کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا، جو مستند فیملی ٹری کی بنیاد پر جاری ہوتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے خواتین وارثوں کو ان کا حق دلوانا آسان ہوا ہے کیونکہ اب کسی جائیداد کی منتقلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام قانونی ورثاء، بشمول خواتین، تسلیم نہ کر لیے جائیں۔

کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ سماجی دباؤ اور روایتی رکاوٹیں خواتین کے لیے سب سے بڑی مشکل ہیں۔ اکثر خواتین کو خاندان سے بائیکاٹ کے خوف سے اپنا حصہ مانگنے سے روکا جاتا ہے، اور بعض اوقات ان سے ایسے کاغذات پر دستخط کرا لیے جاتے ہیں جن سے وہ اپنی جائیداد سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔

کمیٹی نے اپنے اختتامی نکات میں ہدایت دی کہ پنجاب فوری طور پر صنفی بنیاد پر زمین کی ملکیت کا مکمل ڈیٹا فراہم کرے جبکہ سندھ شہری علاقوں کے ریکارڈ کو بھی LARMIS میں شامل کرے تاکہ خواتین کی ملکیت کا جامع نقشہ تیار کیا جا سکے۔ PBS کو صوبائی اداروں کے ساتھ مل کر سروے کے بجائے انتظامی ڈیٹا پر مبنی نظام اپنانے کی ہدایت دی گئی۔

کمیٹی نے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن (SHRC) کی سفارشات کو بھی منظور کیا، جن میں زمین کے صنفی نقشے تیار کرنا، نادرا اور زمین کے ریکارڈ میں جینڈر مارکر شامل کرنا، اور مشترکہ ملکیت کے فروغ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو خواتین کے جائیداد کے حقوق میں قانونی خلا کی نشاندہی کے لیے رپورٹ پیش کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔

کمیٹی نے واضح کیا کہ اگر درست ڈیٹا، مؤثر قانون سازی، اور سماجی رویوں میں تبدیلی نہ لائی گئی تو پاکستان کی خواتین معاشی طور پر بااختیار ہونے کے اس بنیادی حق — جائیداد کی ملکیت — سے بدستور محروم رہیں گی۔

News Link: Women’s Property Rights Undermined by Weak Enforcement and Cultural Barriers: NA Committee – Peak Point

Share This Article
ندیم تنولی اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہیں جو پارلیمانی امور، موسمیاتی تبدیلی، گورننس کی شفافیت اور صحت عامہ کے مسائل پر گہرائی سے رپورٹنگ کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے