عدالتی احاطوں میں موت، حملہ، دھمکیاں اور اوباشی کے واقعات نے عام شہریوں کو عدالتوں تک پہنچنے سے پہلے خوفزدہ کر دیا ہے۔ جہاں عدلیہ کو منصفانہ تحفظ فراہم کرنا چاہیے وہیں روز مرہ کی سماعتوں کے دوران مخالف فریقین کے درمیان فائرنگ اور جسمانی تنازعات معمول بنتے جا رہے ہیں، جس سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔یہ تشویشناک صورتحال بتاتی ہے کہ موجود حفاظتی انتظامات محض ظاہری ہیں؛ داخلہ چیکنگ، میٹل ڈیٹیکٹرز اور سی سی ٹی وی کی موجودگی کے باوجود عدالتی احاطوں میں تشدد بند نہیں ہو رہا۔ انتظامی غفلت اور پولیس و عدالت اسٹاف کے درمیان کوآرڈینیشن کی کمی نے انصاف کے متلاشیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کئی مرتبہ پولیس محض ناظر کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے، جو قانون کے احترام کے لیے نقصان دہ ہے۔عدالتی سیکورٹی کے لیے فوری طور پر منظم اصلاحات ضروری ہیں۔ ہر ضلع میں خصوصی عدالتی حفاظتی یونٹس قائم کیے جائیں جو عدالتوں کے اندر داخلے اور سماعت کے دنوں پر مکمل کنٹرول رکھیں۔ داخلے کے نظام کو بایومیٹرک یا مجاز شناختی کارڈ کی بنیاد پر سخت کیا جائے تاکہ غیر مجاز افراد اور ہتھیار اندر نہ لائے جا سکیں۔ سیکیورٹی کیمرے لائیو دیکھ بھال کے لیے مربوط پولیس کنٹرول رومز سے منسلک ہوں تاکہ فوری ردعمل ممکن ہو سکے۔کورٹ احاطے میں ہتھیاروں کی مکمل ممانعت لاگو کی جائے اور جتنا جلدی ممکن ہو ملوث عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ایسے واقعات کو محض معمولی فوجداری سنگینی سمجھنے کے بجائے ریاستی اتھارٹی پر حملہ تصور کیا جانا چاہیے، اور متعلقہ قوانین کے تحت سخت سزائیں تجویز کی جائیں۔ عدالتی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فوری قانونی ردعمل اور مجرموں کے خلاف سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔بین الاقوامی مثالیں بتاتی ہیں کہ عدالتوں کے احاطے کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف ممالک نے مؤثر نظام وضع کیے ہیں۔ برطانیہ میں عدالتی بدتمیزی کو سختی سے نمٹا جاتا ہے اور امریکہ اور بھارت میں کورٹ سیکیورٹی فورسز عدالتی کارروائی کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے مربوط اور تربیت یافتہ فورسز کو نافذ کرنا چاہیے تاکہ عدالتی عمل محفوظ رہے۔قانونی فریم ورک پہلے سے موجود ہے اور آئین کا آرٹیکل نو ہر شہری کو زندگی اور تحفظ کا حق دیتا ہے۔ اس حق کی ضمانت تبھی ممکن ہے جب عدالتی احاطے محفوظ ہوں۔ اس ضمن میں اعلیٰ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ خود نوٹس لے اور عدالتی سیکورٹی کے حوالے سے واضح پالیسی سازی کا تقاضا کرے تاکہ ضلعی عدالتوں کے احاطے سب کے لیے محفوظ بن سکیں۔وکیل برادری کا کردار بھی اہم ہے؛ پیشہ ورانہ وقار کے حامل وکلاء عدالتی رَوّیے کی پاسداری کر کے نظم و ضبط قائم رکھنے میں مدد دیں تو ماحول بہتر ہوگا۔ اگر فوری اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو عدالتیں خوف کے مراکز بن سکتی ہیں اور عوام کا انصاف پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا۔ اس لیے عدالتی سیکورٹی کو ریاستی حکمت عملی میں سب سے اوپر رکھا جانا چاہیے تاکہ عدالتیں امن، وقار اور انصاف کی مضبوط علامت بن سکیں۔
