جنوبی ایشیا میں علاقائی سلامتی پر علما کا موقف

newsdesk
5 Min Read
انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے کونکل میں ماہرین نے جنوبی ایشیا کی سلامتی، ملٹی پولیریٹی اور غیر روایتی خطرات پر تشویش کا اظہار کیا

انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد نے اپنے سالانہ اسلام آباد کونکل دو ہزار پچیس کے پہلے ورکنگ سیشن کا انعقاد کیا جہاں جنوبی ایشیا کی بدلتی گلوبل سیاست اور علاقائی فریم ورک پر مفصل بحث ہوئی۔ سیشن کا عنوان جنوبی ایشیا میں علاقائی سلامتی اور ملٹی پولیریٹی کے تقاضے تھا اور اس میں مختلف ممالک کے سفارتی اور علمی حلقوں کے نمائندے شریک تھے۔جنرل زبیر محمود حیات نے مرکزی تقریر میں کہا کہ دنیا کی واپسی ملٹی پولیریٹی کی طرف ایک نیا مرحلہ ہے جسے ڈیجیٹل خود مختاری، موسمی دباؤ اور تمدنی ریاستوں کے عروج نے شکل دی ہے۔ اُن کے بقول جنوبی ایشیا اس تبدیلی کے مرکز میں ہے مگر اس خطے کے پاس ایک خود مختار اور خود بنیاد سلامتی نظام موجود نہیں۔ جنرل حیات نے خبردار کیا کہ چھوٹے ممالک اس تبدیلی کے تیز رفتار دھارے میں جہاں ایک طرف بڑی طاقتوں کے ساتھ توازن اختیار کر کے اپنی خودمختاری بڑھا رہے ہیں وہیں انہیں نئی کمزوریوں کا سامنا بھی ہے۔ انہوں نے بڑی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ علاقائی عسکریت پسندی کو فروغ دینے والے ماضی کے رویوں کو دہرائیں نہیں بلکہ جنوبی ایشیائی ریاستوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل بنائیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے حکومتی اداروں کی مزاحمت کو مضبوط کرنے اور اقتصادی فائدے کے لیے ملٹی پولیریٹی کا استعمال کرنے پر بھی زور دیا۔انڈیا اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے خوش آمدیدی کلمات میں عالمی توجہ کی بحالی، خطے میں جاری سیاسی تبدیلیاں اور بامعنی علاقائی اتحاد کی عدم موجودگی کو ایسے عوامل قرار دیا جو جنوبی ایشیا کے جیوپولیٹیکل منظرنامے کو تبدیل کر رہے ہیں۔سفیر عمران احمد صدیقی نے کہا کہ بڑھتے ہوئے غلبے کے رجحانات اور خارجہ پالیسی کا اندرونی سیاسی فائدے کے لیے استعمال تعاون کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ غیر روایتی خطرات کو مدنظر رکھ کر علاقائی تعاون کو ترجیح دی جائے۔سابق سفیر ضمیر اکرم نے کہا کہ متعدد عالمی قوتوں کی موجودگی جنوبی ایشیا کے لیے مواقع اور خطرات دونوں لاتی ہے۔ اُن کے مطابق ریاستہائے متحدہ، چین اور روس کے متوازن تعلقات خطے کو مستحکم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں مگر جوہری ہمسایوں کے درمیان سرحدی کشیدگیاں ایک سنگین تشویش بنی ہوئی ہیں۔ڈاکٹر شیلتا پوکھریل نے نیپال اور دیگر چھوٹے ممالک کی حکمت عملی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ نیپال، مالدیپ اور بھوٹان جیسے ممالک عالمی طاقتوں کے مقابلے میں اپنے مفادات زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے توانائی اور ماحولیاتی تناظر میں مل کر فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔پروفیسر ہوانگ یون سونگ نے کہا کہ روایتی سیکورٹی کے ماڈلز پر انحصار چھوڑ کر خطے کو جیو اکنامکس اور شمولیتی تعاون پر توجہ دینی چاہیے تاکہ مشترکہ چیلنجز جیسے موسمیاتی تبدیلی، آبی دباؤ، وبائیں اور ماحولیاتی خطرات کا جامع حل ممکن ہو۔اجلاس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ جنوبی ایشیائی سلامتی کے مسائل اب محض دو طرفہ تنازعات تک محدود نہیں رہے بلکہ انہیں اقتصادی اور ماحولیاتی عوامل کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جانا چاہیے۔ محققین اور سفارت کاروں نے وسیع پیمانے پر کہا کہ ملٹی پولیریٹی کے دور میں چھوٹے ریاستوں کو اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ادارہ جاتی لچک بڑھانی ہوگی اور بڑے کھلاڑیوں کو علاقے کی عسکری تخریب کاری کو ہوا دینے سے گریز کرنا ہوگا۔آخر میں مقررین کو تحائف پیش کیے گئے جن کی نقابت سفیر خالد محمود نے کی جو ادارے کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس سیشن نے جنوبی ایشیائی سلامتی پر ایک جامع مباحثہ قائم کیا اور آئندہ کارروائیوں کے لیے مشترکہ تجاویز کے دروازے کھولے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے