نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کی فیسوں کا ریگولیشن لازم

newsdesk
7 Min Read
پاکستان میں نجی ہسپتال اور لیبارٹری فیسوں کی بے ضابطگی عام ہے۔ یکساں نرخ، شفاف فہرستیں اور رعایتی پالیسی فوری طور پر نافذ ہونی چاہئیں۔

نجی ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور ڈاکٹروں کی من مانی فیسیں — عوام کے لیے ایک عذاب
تحریر: ظہیر احمد اعوان
ہمارے ہاں اس وقت سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار صحت کا شعبہ بن چکا ہے۔ ملک کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں نجی ہسپتال، کلینک، میڈیکل لیبارٹریاں اور پیتھالوجی مراکز کھلے ہوئے ہیں۔ روزانہ کروڑوں شہری علاج معالجے، ٹیسٹوں اور مشورے کے لیے ان اداروں سے رجوع کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ شعبہ، جو انسانی جان اور صحت سے براہ راست جڑا ہوا ہے، کسی مؤثر سرکاری نگرانی یا قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صحت عامہ سے متعلق نجی اداروں کے لیے سخت ضوابط موجود ہیں۔ وہاں حکومتیں نہ صرف ڈاکٹروں، اسپتالوں اور لیبارٹریوں کے لائسنس باقاعدگی سے جاری کرتی ہیں بلکہ ان کی فیسیں اور ریٹ لسٹیں بھی سرکاری طور پر طے کیے جاتے ہیں تاکہ شہریوں کو لوٹ مار سے بچایا جا سکے۔ لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں جتنا بڑا نجی اسپتال یا معروف لیبارٹری ہو، اتنی ہی زیادہ فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ کسی ڈاکٹر یا اسپتال سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ وہ ایک عام چیک اپ یا ٹیسٹ کے بدلے اتنی بھاری رقم کیوں وصول کر رہا ہے۔یہ حیران کن اور افسوسناک امر ہے کہ ایک عام ریڑھی بان، سبزی فروش، کریانہ سٹور مالک یا تندور والا روزانہ کی بنیاد پر سرکاری نرخ نامے کا پابند ہے۔ اگر وہ ایک روپے بھی زائد وصول کرے تو انتظامیہ فوراً کارروائی کرتی ہے۔ مگر صحت کا شعبہ، جو زندگی اور موت سے تعلق رکھتا ہے، مکمل طور پر قانونی نگرانی سے آزاد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ایک عام شہری نجی اسپتال یا لیبارٹری کا رخ کرنے سے پہلے خوفزدہ ہوتا ہے۔ کہیں ایک ٹیسٹ کی فیس پانچ ہزار ہے تو کہیں وہی ٹیسٹ پندرہ ہزار میں کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹرز اپنی مشاورت کی فیس اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں۔ بعض بڑے شہروں میں معروف ڈاکٹروں کی فیس عام آدمی کی ماہانہ آمدنی کے برابر ہوتی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں نجی صحت کے ادارے سخت حکومتی کنٹرول میں ہوتے ہیں:

  • برطانیہ (United Kingdom) میں نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) تمام صحت کے اداروں کو ریگولیٹ کرتی ہے۔ نجی اسپتالوں کو بھی طے شدہ ریٹ اور فیسوں پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ کسی ڈاکٹر یا اسپتال کو اپنی مرضی سے فیس بڑھانے کی اجازت نہیں۔
  • بھارت میں ہر ریاست کے ہیلتھ کمیشن کے تحت نجی اسپتالوں اور لیبارٹریوں کے لیے فیسوں کے تعین کے قوانین موجود ہیں۔ Clinical Establishments Act 2010 کے تحت ہر اسپتال اور لیب کے لیے سرکاری طور پر منظور شدہ ریٹ لسٹ آویزاں کرنا لازمی ہے۔
  • امریکہ میں اگرچہ صحت نجی شعبے کے پاس ہے، لیکن Medicare اور Medicaid جیسی سرکاری ایجنسیاں علاج اور ٹیسٹوں کے لیے مقرر کردہ نرخ متعین کرتی ہیں جن کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے ہوتے ہیں۔
  • سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں وزارت صحت کے تحت تمام نجی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو لائسنس دیا جاتا ہے اور ان کی فیسوں کی حد مقرر ہوتی ہے۔
    یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک میں نجی صحت کا شعبہ ریاستی ریگولیشن کے بغیر نہیں چل سکتا۔
    پاکستان میں وزارت صحت اور صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشنز کے قیام کے باوجود فیسوں اور ریٹ لسٹوں کا کوئی واضح نظام موجود نہیں۔ اسپتال اور لیبارٹریاں اپنی مرضی سے چارجز مقرر کرتی ہیں۔ اکثر ٹیسٹوں اور علاج کی لاگت سرکاری اسپتالوں کے مقابلے میں پانچ سے دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔مزید برآں، مریضوں سے اضافی فیسیں، “ایمرجنسی چارجز”، یا “کنسلٹنٹ وزٹ فیس” کے نام پر وصول کی جاتی ہیں۔ اس عمل نے نہ صرف عام شہریوں کو ذہنی اور مالی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پیشے پر سے عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہو رہا ہے۔
    ممکنہ حل اور تجاویز
  1. ریٹ لسٹ کا تعین اور نفاذ: وزارت صحت اور صوبائی ہیلتھ کمیشنز نجی اسپتالوں، لیبارٹریوں اور کلینکس کی فیسوں کی حد طے کریں۔
  2. ریٹ لسٹ کی نمائش: ہر نجی اسپتال، کلینک اور لیب کو اپنے داخلی دروازے پر منظور شدہ فیسوں کی فہرست واضح طور پر آویزاں کرنے کا پابند بنایا جائے۔
  3. آن لائن شفافیت:* ایک مرکزی *ڈیجیٹل پورٹل بنایا جائے جہاں شہری تمام اسپتالوں اور لیبز کے سرکاری ریٹس دیکھ سکیں۔
  4. خلاف ورزی پر کارروائی: فیسوں سے تجاوز کرنے والے اداروں پر بھاری جرمانے، لائسنس کی معطلی یا بندش کی سزا دی جائے۔
  5. غریب مریضوں کے لیے فری یا سبسڈائزڈ سروسز: ہر نجی اسپتال کو کم از کم 10٪ مریضوں کو مفت یا رعایتی علاج دینے کا پابند کیا جائے جیسا کہ بھارت اور متحدہ عرب امارات میں ہوتا ہے۔
  6. ڈاکٹرز کی فیسوں کی حد: کنسلٹنسی فیس کا ایک معیار مقرر کیا جائے تاکہ ماہر ڈاکٹر بھی عوامی حد سے باہر نہ جا سکیں۔
    پاکستان میں صحت کا شعبہ کاروبار نہیں، خدمت کا میدان ہونا چاہیے۔ مگر جب فیسیں، کمیشنیں اور منافع ترجیح بن جائیں تو عوام کے علاج کو تجارت بنا دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت وقت نے فوری طور پر اس مسئلے کو قانون سازی کے ذریعے قابو نہ کیا تو عام شہری کے لیے علاج معالجہ ایک خواب بن جائے گا۔
    ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جیسے روزمرہ اشیاء کے نرخ مقرر کیے جاتے ہیں، ویسے ہی نجی ہسپتالوں، کلینکوں اور لیبارٹریوں کی فیسوں کو بھی قانونی دائرے میں لایا جائے۔
    میں حکومتِ پاکستان، وزارتِ صحت، صوبائی حکومتوں اور ہیلتھ کمیشنز سے پُرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس عوامی مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ ہر شہری کو صحت کے بنیادی حق کی فراہمی یقینی بنانا ریاستی فریضہ ہے، اور اس فریضے کی ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب نجی صحت کا شعبہ قانون کے تابع ہو۔
Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے