پروفیسر ڈاکٹر مہتاب سید کریم نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ آبادی میں اضافہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر آبادی اسی شرح سے بڑھے تو دو ہزار پچاس تک ملک کی آبادی تینتیس کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جس کے نتیجے میں شدید غذائی قلت کی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔پریس کانفرنس میں ڈاکٹر صائمہ بشیر نے بتایا کہ عوامی آگاہی کے لیے دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں ماہرین بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل پر تفصیل سے اظہار خیال کریں گے۔ کانفرنس کا مقصد نہ صرف عوام کو بلکہ حکومت کو بھی موجودہ صورتحال سے آگاہ کرنا ہے تاکہ عملی اور منظم اقدامات کیے جا سکیں۔انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافہ ایک ایسا قومی مسئلہ ہے جس کا حل صرف کسی ایک ادارے یا فرد کے بس کا نہیں، قوم کو مل کر سوچنا اور پالیسی بنانا ہوگی۔ آبادی کو کنٹرول کرنا سماجی، معاشی اور انتظامی نقطہ نظر سے ضروري ہے تاکہ عوامی فلاح و بہبود کی سہولتیں برقرار رکھی جا سکیں۔بات کرتے ہوئے بتایا گیا کہ خطے میں شرح پیدائش پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور یہ سالانہ ڈھائی فیصد ہے، جبکہ دیگر ممالک نے مناسب پالیسیوں کے ذریعے اس شرح پر قابو پایا ہے۔ اس حوالے سے موثر خاندانی منصوبہ بندی اور عوامی تعلیم ضروری ہے تاکہ مستقبل میں سہولیات پر غیر ضروری دباؤ کم کیا جا سکے۔کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ اسلام میں خاندانی منصوبہ بندی پر کوئی پابندی نہیں ہے اور معروف علما بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، اس لیے مساجد میں امامان کو اس معاملے پر ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام تک درست پیغام پہنچ سکے۔ آبادی میں اضافہ سے نہ صرف غذائی قلت بلکہ بچوں کو معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے اور روزگار کے مسائل بڑھنے سے معاشرتی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافہ کو روکنے کے لیے جامع حکمت عملی، عوامی شعور اور مذہبی رہنماؤں کی حمایت لازمی ہے، ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی ترقی اور سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دے گی۔ کانفرنس میں شریک ماہرین حکومت سے بھی اپیل کریں گے کہ وہ فوری طور پر عملی اقدامات اختیار کرے تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے وسائل محفوظ رہ سکیں۔
