وفاقی وزیر صحت مصطفٰی کمال نے ادویہ کی نگرانی سے متعلق ورکشاپ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا صحت کا نظام یقینی طور پر آئیڈیل نہیں اور اس میں بنیادی اصلاحات درکار ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ موجودہ صورتحال اسپتالوں پر مریضوں کے انتہائی بوجھ کا باعث بن رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ صحت کا نظام بیرونی سطح پر کمزور ہے۔وزیر نے کہا کہ دنیا میں ہیلتھ سسٹم کا رخ بدل چکا ہے اور اب تو نظام بیماریوں کو پیدا ہونے سے روکنے کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لائف اسٹائل میڈیسن یا طرزِ زندگی سے متعلق علاج مؤثر ہے اور یہ قدرت کے قریب تر نقطۂ نظر ہے جس پر توجہ عموماً کم دی جاتی ہے۔مصطفٰی کمال نے صاف پانی اور سیوریج کے مسائل کو صحت کے بڑے چیلنجز قرار دیا اور بتایا کہ آلودہ پانی کی وجہ سے ستر فیصد کے قریب بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اُن کے بقول اگر صاف پانی میسر ہو تو اسپتالوں پر ستر فیصد تک مریضوں کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان سے کراچی تک آنے والا پانی بعض علاقوں میں امراض پھیلا رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔وزیر نے بتایا کہ ہمارے ہاں سیوریج کے علاج کا تصور نہیں پایا جاتا اس لیے مقامی سطح پر سیوریج کے ٹریٹمنٹ سسٹم کا قیام لازمی ہے۔ اُنہوں نے بارہا کہا کہ علاج سے بہتر پرہیز ہے اور احتیاطی تدابیر و بیماریوں سے بچاؤ ہماری اولین حکمت عملی ہونی چاہیے تاکہ مریض اسپتال پہنچنے کی بجائے بیماری سے پہلے اسے روکا جا سکے۔مصطفٰی کمال نے کچھ مستقبل کی پیش گوئیاں بھی کیں اور کہا کہ دنیا اگلے دس سال میں کینسر سے نجات کے قریب پہنچ سکتی ہے جبکہ ہمارے سماجی اور تعلیمی مسائل کی وجہ سے ہم شاید اسی عرصے میں ویکسین کے بارے میں حلال یا حرام کی بحث میں الجھے رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس، ذیابیطس اور دل کے امراض کی شرح بہت بلند ہے جس پر توقف اور مستقل حکمت عملی ضروری ہے۔قومی ادارہ صحت میں صحت کی دیکھ بھال کے انتظام کا نظام بنایا جا رہا ہے تاکہ ہیلتھ کیئر مینجمنٹ بہتر ہو سکے اور ایسے کردار والے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے جو نظام کو عملی طور پر بدلنے میں حصہ ڈال سکیں۔ وزیر صحت نے زور دیا کہ ہیلتھ کیئر دراصل اسپتال کے باہر سے شروع ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر احتیاط، صاف پانی، سیوریج ٹریٹمنٹ اور طرزِ زندگی میں تبدیلی ہماری اولین ترجیحات ہونی چاہئیں۔
