انسٹی ٹیوٹ برائے علاقائی مطالعہ کے خصوصی اجلاس میں ماہرین، سفارتی حلقے اور حکومتی نمائندوں نے مل کر ملکی ڈیجیٹل خطرات کا جائزہ لیا۔ اس نشست کا انعقاد انسٹی ٹیوٹ کے سائبر سکیورٹی پروگرام کی سربراہ محترمہ علینہ فیاض کی قیادت میں کیا گیا جس میں ڈارک ویب اور آن لائن منشیات کے ابھرنے والے نئے طریقوں پر گفتگو ہوئی۔سفیر جاوہر سلیم نے اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن پلیٹ فارمز نے نوجوانوں تک رسائی آسان کر دی ہے اور اسی آسانی کا فائدہ مجرمانہ عناصر اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے ریاستی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے، سائبر ماہرین کی تربیت اور تحقیقاتی اداروں کی اپگریڈیشن کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مختلف اداروں کے درمیان تعاون اور علم کی منتقلی اب لازمی ہے۔ٹروز ویسٹر، اقوامِ متحدہ برائے منشیات اور جرائم کے کنٹری نمائندے نے ڈارک ویب کو سائبر جرائم کے لیے ایک پیچیدہ سہولت کار قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پیغام رسانی کی ایپلیکیشنز کو منشیات کی تقسیم کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور مجرمانہ حلقے ای کامرس طرز کے ماڈلز اپنا کر تجارت کو منظم کر رہے ہیں جس سے آن لائن منشیات کا پتا چلانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے مخففیت، خفیہ چینلز اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ذریعے فرار پانے کے رجحان پر انتباہ کیا اور تکنیکی اور وسائل پر مبنی مربوط ردعمل کی ضرورت اجاگر کی۔اولیور گڈنی نے تحقیقاتی اوزار، تکنیکی طریقہ کار اور عالمی بہترین طریقوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ آن لائن نیٹ ورکس کے مالی پہلوؤں کو نشانہ بنا کر ہی مجموعی دھاندلی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والوں کو بدلتے ڈیجیٹل ماحول کے مطابق مسلسل اپ ڈیٹ رہنے اور اس دوران منشیات کے عادی افراد کے ساتھ ہمدردی برتنے کی ضرورت پر زور دیا۔سابق رکن اقوامِ متحدہ کمیسیون برائے منشیات منصور خان نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان اوپیئٹس کی پیداوار اور عبوری راستوں میں اہم حیثیت رکھتے ہیں اور تعلیمی ادارے اس نیٹ ورک کے ہدف بنتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں استعمال کرنے والوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے اور تقریباً ستر فیصد منشیات استعمال کرنے والے تیس سال سے کم عمر ہیں۔ منصور خان نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ سمندری، زمینی اور ہوائی راستے ابھی بھی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں حالانکہ اینٹی نارکوٹکس فورس کی کاوشیں جاری ہیں۔اجلاس کے اختتام پر سفیر جاوہر سلیم نے کہا کہ منشیات کے ان جدید اور سرحدی خطرات سے نمٹنے کے لیے جامع حکمتِ عملی ضروری ہے جس میں سرحدی کنٹرولز کو سخت کرنا، موثر نگرانی کے میکانزم لاگو کرنا، عوام میں شعور بیدار کرنا اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کو فروغ دینا شامل ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ آن لائن منشیات کے مسئلے کا مستقل حل تب ہی ممکن ہے جب تکنیکی استعداد، مناسب وسائل اور بین الاداری تعاون کو یکجا کیا جائے۔
