ممتاز سٹی بلڈرز ایسوسی ایشن کے صدر عمر انوار نے الزام عائد کیا ہے کہ سوسائٹی انتظامیہ یوٹیلیٹی بلز کے نام پر ظالمانہ سرچارج لگا کر پلاٹوں کی قیمتوں پر بھتہ مطالبہ کر رہی ہے اور انکار کی صورت میں ویگو گاڑیاں لا کر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے سوسائٹی کا پانی بند ہے اور ٹینکروں کو بھی اندر نہیں آنے دیا جا رہا، جس سے رہائشیوں اور بلڈرز کو ناقابلِ برداشت مشکلات کا سامنا ہے۔عمر انوار نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے استدعا کی کہ اس علاقے کو اسلحے سے پاک کیا جائے اور ڈالہ کلچر کا خاتمہ کیا جائے تاکہ سرمایہ کاروں خصوصاً بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی سرمایہ کاری محفوظ رہے۔ انہوں نے انتظامیہ کے خلاف فوری فرانزک آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مسائل کے حل تک احتجاج جاری رکھا جائے گا۔ ۷ نومبر کو بعد نمازِ جمعہ ٹاپ سٹی بلاک بی حسنین مسجد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوگا، جبکہ یہ مطالبات نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں دستخطی پریس کانفرنس کے ذریعے بھی دہرائے گئے۔پریس کانفرنس میں ذیشان، صدر ٹاپ سٹی بلڈرز ایسوسی ایشن شیخ سلیم اور جنرل سیکرٹری چوہدری محسن بھی موجود تھے۔ رہنماؤں نے بتایا کہ سوسائٹی انتظامیہ نے پہلے سے الاٹ کیے گئے اور قبضے میں لیے گئے پلاٹس پر اضافی ڈویلپمنٹ اور فلور چارجز لاگو کیے ہیں جو کسی قانونی جواز کے بغیر ہیں، ان چارجز کو واپس لیا جانا چاہیے۔عوامی انفراسٹرکچر کی حالت بھی غیر معیاری ہے؛ پارکس، مساجد، پارکنگ کی جگہیں اور اسٹریٹ لائٹنگ جیسی سہولیات نامکمل ہیں اور سڑکوں کا نیٹ ورک ابتر ہے۔ پانی کی فراہمی کا نظام متضاد اور ناکافی ہے، رہائشی بار بار ٹینکروں کے ذریعے پانی کی درخواست کرنے پر مجبور ہیں مگر انتظامیہ اکثر پانی کی فراہمی سے انکار کر دیتی ہے یا ٹینکروں کے داخلے پر پابندی لگا دیتی ہے۔اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹیکس کی دفعات کا غلط استعمال اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کا فقدان ہے جبکہ سوسائٹی میں ہسپتال، ہنگامی خدمات، فائر برگیڈ اور کمیونٹی سینٹر جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ منظور شدہ لے آؤٹ پلان میں تبدیلیاں خاص طور پر مساجد اور کمیونٹی ایریاز کے حوالے سے تشویش کا باعث ہیں اور مجاز اتھارٹی کی پیشگی تحریری منظوری کے بغیر یہ رد و بدل قواعد ۴۶ (۴) کی خلاف ورزی ہے جو ماسٹر پلان کی حرمت کو مجروح کرتا ہے۔ پارکنگ ایریاز کو کمرشل پلاٹس یا ڈھانچوں میں تبدیل کرنا بھی عوامی مفاد اور حفاظتی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔رہنماؤں نے انکشاف کیا کہ ٹاپ سٹی اور ممتاز سٹی نئی اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ہونے کے باعث اسلحے کے زور پر بدمعاشی اور ڈالہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے، مزدوروں کو اٹھا کر لے جایا جاتا ہے اور اس سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی متاثر ہو رہی ہے۔ ایک جدید اور سمارٹ ہاؤسنگ سکیم کے دعوے کے باوجود زیادہ تر رہائش گاہوں اور بلڈروں کے لیے قابلِ اعتماد انٹرنیٹ اور مواصلاتی سہولت میسر نہیں ہے۔ممتاز سٹی کے رہنماؤں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ شفاف، قانونی اور ذمہ دارانہ طریقے سے فوری کارروائی کرے اور متعلقہ مسائل کو قابلِ اطلاق قوانین اور قواعد کے مطابق حل کرے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ۷ نومبر کے احتجاج میں شرکت کر کے انصاف اور شفافیت کا مطالبہ کریں۔
