اطلاعات تک رسائی کا عالمی دن: پاکستان کے انفارمیشن کمیشنز تاخیر، خالی آسامیوں اور کمزور عمل درآمد پر تنقید کی زد میں

5 Min Read
عالمی دن پر صحافیوں اور فعالین نے انفارمیشن کمیشنز کی تاخیر، خالی نشستیں اور حقِ معلومات کے کمزور نفاذ پر تشویش ظاہر کی۔

اطلاعات تک رسائی کا عالمی دن: پاکستان کے انفارمیشن کمیشنز تاخیر، خالی آسامیوں اور کمزور عمل درآمد پر تنقید کی زد میں

اسلام آباد (ندیم تنولی) اطلاعات تک رسائی کے عالمی دن کے موقع پر سماجی کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے پاکستان کے انفارمیشن کمیشنز کی کارکردگی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشنز میں خالی آسامیاں، تاخیری حربے، سیاسی اثر و رسوخ اور آر ٹی آئی قوانین پر کمزور عمل درآمد نے اس نظام کو بے اثر بنا دیا ہے، حالانکہ آئین کے آرٹیکل 19-اے کے تحت ہر شہری کو معلومات تک رسائی کی ضمانت دی گئی ہے۔

سید کوثر عباس: خالی نشستیں اور کمزور نفاذ
ایس ایس ڈی او پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن میں سول سوسائٹی کی نشست جنوری 2024 سے خالی ہے جبکہ پنجاب کمیشن میں مارچ 2025 سے کمی کا سامنا ہے۔

محمد اکمل ملک: مشکل ترین مرحلہ
2019 کے آر ٹی آئی ایوارڈ یافتہ محمد اکمل ملک نے کہا کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی اب ایک "انتہائی مشکل مرحلے” میں داخل ہوچکی ہے۔ معمول کی تاخیر اور نامکمل جوابات نے قانون کی افادیت کو کمزور کیا ہے۔

شکیلہ جلیل: مثبت قانون، کمزور عمل درآمد
راولپنڈی پریس کلب کی سابق انچارج شکیلہ جلیل نے کہا کہ ان کے مشاہدے میں آر ٹی آئی ایک مثبت قدم ہے مگر اس پر عمل درآمد ناکافی ہے۔ بعض اداروں نے بروقت معلومات فراہم کیں لیکن زیادہ تر محکمے تاخیر، عدم سنجیدگی یا انکار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

سید رضا علی: شکایات کا حل ادھورا
گورننس ماہر سید رضا علی کے مطابق وفاق اور صوبوں میں اکثر شکایات بغیر سنوائی بند کر دی جاتی ہیں، جس سے عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا سمیت تمام کمیشنز میں خالی آسامیاں شکایات کے حل میں رکاوٹ ہیں۔

یسال منیم: صحافی کی مایوسی
صحافی یسال منیم نے بتایا کہ ایک خبر کے لیے لاہور جیلوں میں ہندو اور مسیحی قیدیوں کی تعداد معلوم کرنے کی کوشش کی گئی، مگر آٹھ ماہ بعد بھی جواب نامکمل رہا۔ اس تجربے نے انہیں مزید درخواست دینے سے ہچکچاہٹ میں مبتلا کر دیا۔

نعیم احمد: اپیلیں بے نتیجہ
فیصل آباد کے نعیم احمد نے کہا کہ پنجاب کمیشن سب سے زیادہ مایوس کن ہے، جہاں ان کی پچاس سے زائد اپیلیں تاحال زیر التوا ہیں۔ کمیشن نہ صرف فیصلوں میں تاخیر کرتا ہے بلکہ بعض اوقات محکموں کے حق میں جھکاؤ بھی دکھاتا ہے۔

ڈاکٹر رضا گردیزی: تاخیر پر سزا ضروری
ڈاکٹر رضا گردیزی نے کہا کہ معلومات اکثر اپیل کے بعد ملتی ہیں، جو دراصل "تاخیر” کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کے مطابق جب تک تاخیر اور عدم فراہمی پر سرکاری اہلکاروں کو سزا نہیں دی جاتی، آر ٹی آئی کمزور رہے گا۔

عون علی: کوئٹہ سے آواز
بلوچستان کے صحافی عون علی نے کہا کہ ان کی اپیلیں مہینوں زیر التوا رہتی ہیں، کالز کا جواب نہیں ملتا اور بعض فیصلوں پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔

احتزاز احمد: خیبرپختونخوا میں مثبت رویہ
احتزاز احمد نے کہا کہ خیبرپختونخوا کمیشن کا رویہ نسبتاً بہتر اور تعاون پر مبنی ہے۔

نائلہ حمزہ: سیاسی اثر و رسوخ
ایبٹ آباد کی آر ٹی آئی کارکن نائلہ حمزہ کے مطابق وفاقی، پنجاب، سندھ اور کے پی کے کمیشنز سیاسی اثرات کا شکار ہیں۔ ان کے بقول یہ رجحان "آہستہ زہر” ہے جس نے عوام کو درخواستیں دینے سے بددل کر دیا ہے۔

امتیاز احمد: گلگت بلتستان محروم
جی بی آر ٹی آئی انیشی ایٹو کے بانی امتیاز احمد نے کہا کہ گلگت بلتستان میں تاحال آر ٹی آئی بل منظور نہیں کیا گیا، جو حکومت کی بڑی کوتاہی ہے۔

نعیم صادق: ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر
سماجی کارکن نعیم صادق نے کہا کہ کمیشنز "بے دندان” ہوچکے ہیں۔ ان کے مطابق اس نظام کو فعال بنانے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن، جواب دہی اور اسٹرکچرل ریفارمز لازمی ہیں۔

Share This Article
ندیم تنولی اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہیں جو پارلیمانی امور، موسمیاتی تبدیلی، گورننس کی شفافیت اور صحت عامہ کے مسائل پر گہرائی سے رپورٹنگ کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے