گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نیشنل پریس کلب پہنچے اور اسلام آباد پولیس کے حالیہ اقدام پر صحافی برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پریس کلب کے تقدس کی خلاف ورزی، صحافیوں اور کیمرہ مینوں پر مبینہ بےرحمانہ تشدد، کیمروں اور موبائل فونز کی توڑ پھوڑ اور این پی سی کیفے ٹیریا میں ہونے والے نقصان کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔گورنر نے کہا کہ پریس کلب نہ صرف صحافیوں بلکہ سیاستدانوں کا بھی دوسرا گھر ہے اور اس ادارے پر حملہ پاکستان کی تاریخ کا افسوسناک واقعہ ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعہ میں ملوث اہلکاروں کے خلاف نہ صرف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے بلکہ اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن بنا کر عبرتناک سزا دی جائے اور توڑے گئے کیمروں اور دیگر سامان کا ازالہ کیا جائے۔گورنر نے واضح کیا کہ معاملے کی شفاف تحقیق اور متاثرہ افراد کو انصاف فراہم کرنا ضروری ہے جبکہ صحافیوں کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے بارے میں وزیر داخلہ سے بات چیت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی یا معمولی معطلی سے بڑھ کر ایسے اہلکاروں کو سخت سزا ملنی چاہئے جنہوں نے پریس کلب کے تقدس کو پامال کیا۔پریس کلب میں گورنر کی آمد پر پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، صدر این پی سی اظہر جتوئی، سیکرٹری نیر علی، نائب صدر سید ظفر ہاشمی، گورننگ باڈی کے اراکین عامر رفیق بٹ، جعفر علی بلتی، اور آر آئی یو جے کے سینئر نائب صدر راجہ بشیر عثمانی سمیت دیگر رہنماؤں نے پرتپاک استقبال کیا۔پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ این پی سی پر پولیس کا یہ حملہ ملک کی صحافتی روایت کے خلاف ہے اور دنیا بھر میں پریس کلبز کی حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پریس کلب پر حملہ ایک نیا اور تشویشناک واقعہ ہے، اس حملے کے بعد صحافتی برادری نے جو مشترکہ ایکشن کمیٹی قائم کی ہے وہ اس سلسلے میں ٹھوس اور مستقل حفاظت کی ضمانت مانگے گی۔صدر این پی سی اظہر جتوئی نے گورنر کے اخلاقی اور عملی تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل پریس کلب صحافیوں اور مظلوم طبقات کا قلعہ ہے اور اس پر حملہ ہرگز قبول نہیں۔ سیکرٹری نیر علی نے کہا کہ اس واقعہ نے صحافی برادری کے جذبات کو زخمی کیا ہے اور مختلف مکاتب فکر کی یکجہتی قابل تحسین ہے، صحافی اسے اپنے گھر پر حملہ تصور کرتے ہیں۔گورنر نے مطالبہ دہرایا کہ توڑ پھوڑ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور مستقبل میں ایسی دوبارہ وارداتوں سے بچنے کے لیے مناسب حفاظتی اور ضابطہ کار کی ضمانت دی جائے۔ صحافی تنظیموں نے وزیر مملکت برائے داخلہ کی معذرت کو نوٹس میں لیتے ہوئے مشاورت کے بعد مزید لائحہ عمل طے کرنے کی بات کی ہے۔واقعے کے بعد بننے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور صحافتی اکائیاں اس بات پر متفق ہیں کہ پریس کلب پر حملہ کا معاملہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ آئندہ کے لیے حفاظتی اور آئینی تحفظ کا معاملہ ہے جس پر سخت قدم اٹھائے جائیں۔
