تعلیم کا سفر نوجوانوں کی آنکھوں میں

newsdesk
2 Min Read
۱۶ویں سالانہ کانفرنس کے پہلے پینل نے طلبہ کو بولنے کا موقع دیا، جہاں انہوں نے تعلیمی سفر کے مسائل اور بہتری کی تجاویز بیان کیں۔

پہلا پینل ۱۶ویں سالانہ کانفرنس میں منعقد ہوا جس کی میزبانی عروہ نعیم نے کی اور اس میں نوجوان طلبہ کو وہ موقع دیا گیا جو عموماً کمیونٹی اور پالیسی سازوں تک پہنچنے سے پہلے چھوٹ جاتا ہے۔ طلبہ نے اپنے روزمرہ تجربات کھل کر بیان کیے اور تعلیمی نظام کے سامنے آنے والی مشکلات کو براہِ راست بتانے کا موقع ملا۔شرکاء نے بتایا کہ کم نمبروں کی بنیاد پر فوری فیصلے کیے جانا ان کے مواقع محدود کر دیتا ہے اور اس وجہ سے کئی بچے ہنر اور صلاحیتوں کے باوجود پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کئی طلبہ نے واضح کیا کہ نمبرات کی روش اکثر اصل تعلیمی عمل کو پوشیدہ کر دیتی ہے اور اس طرح تعلیمی سفر کا مقصد ضائع ہوتا محسوس ہوتا ہے۔بحث کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ اساتذہ کے خوف، سزا کا اندیشہ اور کلاس میں مذاق کا نشانہ بننے کا ڈر بچوں کو سوال پوچھنے اور شرکت کرنے سے روکتا ہے۔ محدود وسائل، رہنمائی کی کمی اور سخت نظام کی وجہ سے اسکول اکثر بوجھ جیسا محسوس ہوتا ہے نہ کہ نشوونما کا مقام۔ یہ تمام نکات تعلیمی سفر کے مجموعی معیار کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے باوجود طلبہ نے حل اور امید کی آوازیں بھی بلند کیں۔ انہوں نے ایسی کلاس رومز کا مطالبہ کیا جہاں اساتذہ ہمت افزائی کریں، خوف نہ پیدا کریں اور سیکھنے کو صرف نمبروں تک محدود نہ رکھا جائے۔ ہر طالب علم کی پس منظر یا صلاحیت سے قطع نظر قدر اور معاونت کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ تعلیمی سفر سب کے لیے باوقار اور بامقصد بن سکے۔شرکاء کا واضح پیغام یہ تھا کہ تعلیمی اصلاحات کے لیے پہلے وہ سنیں جو روزانہ اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ اس سے ہی عملی تبدیلیاں متعارف ہو سکتی ہیں جو کلاس رومز کو زیادہ سہل، شمولیتی اور ترقی کے قابل بنائیں گی اور تعلیمی سفر کو حقیقی معنوں میں بہتر کریں گی۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے