مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے عالمی عمل کی اپیل

newsdesk
5 Min Read
نیویارک میں کشمیر بلیک ڈے پروگرام میں مقررین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا

نیویارک میں منعقدہ کشمیر بلیک ڈے پروگرام میں مقررین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی شجاعت اور لازوال قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور عالمی برادری خصوصاً اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے تحفظ کے لیے سکیورٹی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر فوری طور پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ مقررین نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اسی صورت ممکن ہے جب جموں و کشمیر تنازعہ کا منصفانہ اور قانونی حل سامنے آئے۔یہ تقریب پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوامِ متحدہ اور قونصل جنرل نیو یارک کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہوئی اور اس کا موضوع بھارتی غیرقانونی قابض جموں و کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی اور نوآبادیاتی منصوبہ تھا۔ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور کشمیری برادری کے نمائندے شریک ہوئے۔مقررین میں سعود سلطان، اعجاز صابر، سردار سوار خان، راجہ مختار خان اور تاج خان شامل تھے جبکہ قونصل جنرل عامر احمد اتوزئی نے خوش آمدید کہا۔ پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان جموں و کشمیر کے عوام کے منصفانہ مطالبے کے ساتھ مکمل شناختی اور سیاسی یکجہتی رکھتا ہے اور اقوامِ متحدہ کے اکتسابی اصولوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنا مقدر خود طے کرنے کا حق ملا ہوا ہے۔عاصم افتخار احمد نے بتایا کہ اگست 2019 کی یکطرفہ کارروائیاں، زمین کی ضبطگی، نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے آبادیاتی توازن میں تبدیلی اور حلقہ بندی جیسے اقدامات مقبوضہ جموں و کشمیر پر ایک کالونیل سیٹلر پروجیکٹ کے عناصر ہیں اور یہ چوتھی جینیوا کنونشن کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کی تازہ مشورتی رائے کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور قابض پالیسیوں کے روزمرہ اثرات کا تفصیلی تعین ضروری ہے۔مقررین نے نوجوان نسل کو جدید میڈیا اور ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے کشمیری جذبے اور جدوجہد کی کہانی سنانے میں فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سعود سلطان نے اپنی کتاب "جموں و کشمیر ـ بھولا دیا گیا بیانیہ” کے حوالہ سے بتایا کہ کشمیری آوازیں تاریخی اور علمی بیانیوں سے جان بوجھ کر مسترد کی گئی ہیں اور تاریخی حقائق کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا نتیجہ حقیقت کی فراموشی کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔اعجاز صابر نے قانونی زاویے سے بھارت کے اقدامات کو چوتھی جینیوا کنونشن، منشورِ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی معاہدات کے حوالے سے تنقیدی نگاہ سے قرار دے کر کہا کہ آبادی کی جبراً منتقلی اور انتظامی اقدامات بین الاقوامی انسانی ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اٹھارہ اقوامِ متحدہ قراردادیں کشمیر کے متنازعہ درجہ اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی آئینی حیثیت کی تصدیق کرتی ہیں۔سردار سوار خان اور راجہ مختار خان نے تاریخی پس منظر اور سیاسی حقائق اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی حیثیت متنازعہ ہے اور 2019 کے بعد نافذ کی گئی چالیس سے زائد قوانیں اس متنازعہ حیثیت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ تاج خان نے کہا کہ قابض انتظامیہ کے اقدامات دنیا کے سامنے آتے جا رہے ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسرائیل سے مشابہ پالیسیاں نظر آ رہی ہیں، جس پر کشمیری عوام کا عزم پختہ ہے کہ وہ آزادی حاصل کریں گے۔تقریب میں صدر اور وزیرِ اعظم کے پیغامات بھی پڑھ کر سنائے گئے اور سعود سلطان نے اپنی کتاب قونصل جنرل اور مستقل مندوب کو پیش کی۔ مقررین نے زور دیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملے پر عالمی فورمز میں مسلسل اور مربوط اقدام ناگزیر ہے تا کہ کشمیری عوام کے بقا، شناخت اور حقِ خودارادیت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے