آل پارٹیز کانفرنس کا دس نکاتی اعلامیہ اور اہم فیصلے

newsdesk
5 Min Read

اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس نے مشترکہ طور پر جاری اعلامیہ میں بھارت کے خلاف آپریشن بنیان المرصوص کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور اہم ملکی و مذہبی معاملات پر اپنی پالیسی واضح کی ہے۔ اعلامیہ میں توہین مذہب کے مقدمات کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے ماہرین قانون اور مذہبی اسکالرز پر مشتمل رابطہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اگر کسی متاثرہ خاندان کو لگے کہ اس پر توہین مذہب کا مقدمہ غلط ہے تو وہ اس کمیٹی سے رابطہ کر سکتا ہے۔

کانفرنس میں غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر عملی اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔ ساتھ ہی زور دیا گیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے دفاتر پاکستان منتقل کیے جائیں کیونکہ توہین مذہب کے واقعات میں مبینہ طور پر بین الاقوامی عناصر ملوث ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ توہین مذہب کے مقدمات کی آڑ میں توہین رسالت کے قانون کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

سیاسی اتحاد قائم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا جو مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عوامی مسائل پر مشترکہ جدوجہد کرے گا۔ کانفرنس نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ توہین صحابہ و اہلبیت بل کو فوری طور پر صدر مملکت دستخط کریں۔ مزید یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ عوام پر ٹیکس کم کرے اور اپنے اخراجات محدود کرے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سیاست، مذہب، علاقہ اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا اور اب ملک کے اصل مقاصد سے انحراف ہو رہا ہے۔

اعلامیہ میں عدلیہ کی کمزور ہوتی حیثیت اور آئین کی روزانہ پائمالی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ کبھی مارشل لا، کبھی ہائبرڈ سسٹم اور کبھی صدارتی نظام کی باتیں ملکی استحکام کے منافی ہیں۔ مطالبہ کیا گیا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر پیغام پاکستان پر از سر نو غور کریں۔ کشمیر کے حوالے سے کہا گیا کہ امریکہ اصل میں بھارت کو اسلحہ بیچنے اور چین کو محدود کرنے کی کوشش میں ہے۔ مقررین کا موقف تھا کہ امریکہ اور یورپی ممالک نے سندھ طاس معاہدے یا کشمیر پر بھارت کو کبھی سنجیدہ طور پر آگاہ نہیں کیا۔

کانفرنس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے توہین رسالت سے متعلق فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ قبول نہیں ہوگا اور ملک میں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے متفقہ طور پر آواز بلند کی جائے گی۔ پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے اصولی مؤقف کو بھی دوہرایا گیا اور واضح کیا گیا کہ فلسطین ایک آزاد ریاست ہے اور اسی حیثیت سے قائم رہے گی۔

ملک میں امن و امان کی صورتحال پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مخصوص سازشوں کے تحت بدامنی پھیلائی جا رہی ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں، بعض سیاسی جماعتوں پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اعلامیہ میں زور دیا گیا کہ ملکی اتحاد کے لیے آئین پاکستان کے تحفظ پر سب جماعتیں "میثاق پاکستان” کریں اور نفاذ اسلام کی عملی کوشش کو اپنا فرض اور قرض سمجھیں۔ ختم نبوت کے معاملے پر ملک بھر میں ایک ہی مؤقف اپنانے پر اتفاق کیا گیا اور اس حوالے سے خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ کانفرنس کے اختتام پر یہ عزم ظاہر کیا گیا کہ تمام محب وطن قوتیں ملک میں داخلی انتشار کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی اور آئین پاکستان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے