لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں متوقع ٹرینیلے ٢٠٢٥ کا شاندار آغاز ہوا جس میں فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک تھے۔ تقریب میں ملک بھر اور بیرونِ ملک سے آرٹسٹ، ڈیزائنرز، موسیقار، محققین، سفارتکار، ثقافتی ماہرین، اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی اور نمائشوں و پرفارمنسز نے شائقین کو متاثر کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان کی متنوع ثقافتی وراثت کو جدید دور کے چیلنجوں کے باوجود محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ ان الفاظ میں انہوں نے کہا کہ ‘کسبِ ہلال سے لے کر کسبِ کمال کن تک ہر فن پارہ اپنی کہانی بیان کرتا ہے اور یہ تخلیقات برصغیر کی ثقافتی پہچان کی عکاسی کرتی ہیں’۔ وزیر نے یہ اعلان بھی کیا کہ رواں سال کراچی میں نیا کیمپس قائم کیا جائے گا تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں فنونِ لطیفہ کی تعلیم کو فروغ دیا جا سکے۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جافری نے خطاب میں بتایا کہ یہ ٹرینیلے ادارے کی ایک سو پچاس سالہ میراث کے جشن کا حصہ ہے اور این سی اے ہمیشہ تخلیق، فن اور ثقافتی ہم آہنگی کا مرکز رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ اپنے قیمتی ارکائیوز کو محفوظ رکھنے کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے امتزاج سے ایک منفرد ثقافتی ورثہ تشکیل دے رہا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے قابلِ قدر اثاثہ ثابت ہوگا۔ٹرینیلے ٢٠٢٥ میں یورپ، چین، ایران، برطانیہ اور فلسطین سمیت دو سو سے زائد قومی و بین الاقوامی فنکار اپنا کام پیش کر رہے ہیں۔ افتتاحی تقریب میں بصری فنون کی نمائشیں، بین الاقوامی پراجیکٹس، مختلف آرٹسٹک نمائشیں اور موسیقی کی ایک یادگار پیشکش بھی شامل تھی۔ اس موقع پر استاد حمید علی خان نے منفرد ادائیگی کے ساتھ موسیقی پیش کی، پروگرام کے دوران شجرکاری کا عمل بھی انجام پایا اور بعد ازاں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔موضوعِ نمائش ‘کسبِ کمال کن’ نیشنل کالج آف آرٹس کے تاریخی نعرے ‘کسبِ کمال کن کہ عزیزِ جہاں شَوِی’ سے متاثر ہے اور یہ تخلیقی جذبے، فنِ لطیفہ اور ثقافتی تنوع کو اجاگر کرتا ہے۔ شرکاء اور مہمان تنظیموں نے این سی اے کے ایک صدی سے زائد کے سفر کو سراہا اور ٹرینیلے ٢٠٢٥ کو ملک میں فن و ثقافت کے فروغ کے حوالے سے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔
