ڈاکٹر وسیم الرحمٰن کا اسپائنل مسکیولر ایٹروفی (SMA) کے علاج میں نئی امیدوں اور سائنسی پیش رفت پر جامع خطاب
اسلام آباد — شفا انٹرنیشنل اسپتال کے ایسوسی ایٹ کنسلٹنٹ برائے پیڈیاٹرک نیورولوجی ڈاکٹر وسیم الرحمٰن نے اسپائنل مسکیولر ایٹروفی (SMA) سے متعلق Strive Foundation کی قومی کانفرنس میں ایک اہم اور معلوماتی لیکچر دیا جس کا عنوان تھا “A Genetic Journey from Weakness to Breakthroughs”۔ ان کے خطاب میں SMA کے علاج، تشخیص، اور طویل المعیاد نگہداشت سے متعلق تازہ ترین سائنسی پیش رفتوں اور چیلنجز پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔

ڈاکٹر وسیم، جنہوں نے خیبر میڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس، آغا خان یونیورسٹی اسپتال کراچی سے پیڈیاٹرکس میں ایف سی پی ایس اور یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز لاہور سے پیڈیاٹرک نیورولوجی میں ایف سی پی ایس کیا، نے اپنی تقریر کا آغاز Strive Foundation اور اپنے ساتھی مقررین ڈاکٹر عاصم اعجاز اور ڈاکٹر مریم طارق کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں SMA کے مریضوں کے والدین کے پاس امید کی کوئی کرن نہیں تھی، لیکن اب سائنسی ترقی اور Strive جیسے اداروں کی کوششوں سے حالات بدل گئے ہیں۔ ڈاکٹر وسیم نے کہا کہ والدین اکثر بیماری کی ابتدائی علامات پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں اور جب بچے کو ڈاکٹر کے پاس لاتے ہیں تو مرض خاصا بڑھ چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے زبان کے پٹھوں کی حرکت (Tongue Fasciculations) اور پٹھوں کی کمزوری (Hypotonia) کو SMA کی ابتدائی شناخت کے اہم اشارے قرار دیا۔ ان کے مطابق جینیاتی ٹیسٹنگ پاکستان میں آغا خان یونیورسٹی کے ذریعے دستیاب ہے، جس کا نتیجہ تقریباً سات سے دس دن میں آ جاتا ہے۔
علاج کے حوالے سے انہوں نے تین بڑی تھراپیز کا ذکر کیا: Nusinersen (Spinraza)، Risdiplam (Evrysdi)، اور Zolgensma۔ ان کے مطابق Nusinersen ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے دی جانے والی انجکشن تھراپی ہے جس کا علاج طویل اور مہنگا ہے، جبکہ Risdiplam ایک زبانی دوا ہے جو جین SMN2 کو فعال کر کے مرض کی شدت کم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا:
“وہ بچے جو ٹائپ ون SMA کے مریض ہیں اور ماضی میں اپنی پہلی سالگرہ نہیں دیکھ پاتے تھے، اب بیٹھنے کے قابل ہو گئے ہیں — یہ واقعی ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔”
انہوں نے اس کامیابی کا سہرا Strive Foundation کو دیا جس نے کئی ایسے مریضوں کو علاج فراہم کیا جو اسپتال کی فیس تک برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
ڈاکٹر وسیم نے Zolgensma کو ایک جدید جین تھراپی قرار دیا جو SMA کے بنیادی سبب SMN1 جین کو درست کر کے ممکنہ طور پر مریض کو “شفا” دے سکتی ہے، تاہم انہوں نے اس کی ناقابل برداشت قیمت 22 لاکھ امریکی ڈالر کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ صرف دوا کافی نہیں بلکہ مکمل سپورٹ سسٹم — جیسے فزیوتھراپی، غذائی معاونت، اور سانس کی مشینیں (BiPAP، Cough Assist Devices) — بھی ضروری ہیں تاکہ مریض بہتر معیارِ زندگی حاصل کر سکیں۔
اپنے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر وسیم الرحمٰن نے Strive Foundation اور اس کے عطیہ دہندگان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
“میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ بچے جو اسپتال کی فیس نہیں دے سکتے تھے، آج Risdiplam پر ہیں اور ترقی کر رہے ہیں — یہ واقعی ایک ناقابلِ یقین تبدیلی ہے۔”
سوال و جواب کے سیشن میں انہوں نے متعدد اہم سوالات کے جوابات دیے۔ پیدائشی تشخیص (Prenatal Diagnosis) پر انہوں نے بتایا کہ SMA کے خطرے والے خاندانوں میں Chorionic Villus Sampling (CVS) کے ذریعے حمل کے دسویں سے بارہویں ہفتے میں تشخیص ممکن ہے۔ انہوں نے راولپنڈی کے جینیٹک ریسورس سینٹر (GRC) کا بھی ذکر کیا جو یہ سہولت فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے غلط تشخیص (Misdiagnosis) پر کہا کہ SMA کو اکثر Cerebral Palsy (CP) سمجھ لیا جاتا ہے، لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ SMA کے مریض ذہنی طور پر متحرک ہوتے ہیں، ان کی نظریں ملتی ہیں، وہ مسکراتے ہیں اور ببلنگ کرتے ہیں — جب کہ CP کے بیشتر مریض ایسا نہیں کر پاتے۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں ماہرینِ اعصاب ایک دن میں 300 سے 350 مریض دیکھتے ہیں، جس سے ہر مریض کو تفصیلی وقت اور رہنمائی دینا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریضوں اور والدین کو بروقت معلومات اور جذباتی مدد نہیں مل پاتی۔
SMA Alert Card کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک اس طرح کے کارڈ عام نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپنی تربیت کے دوران آغا خان یونیورسٹی میں انہوں نے میٹابولک بیماریوں کے لیے “Sick Day Plan Cards” دیکھے تھے، مگر SMA یا مرگی (Epilepsy) کے لیے اس طرح کا کوئی نظام موجود نہیں۔
ڈاکٹر وسیم الرحمٰن کا خطاب سائنسی تحقیق، انسانی ہمدردی، اور عملی تجاویز کا بہترین امتزاج تھا۔ ان کی گفتگو نے واضح کیا کہ پاکستان میں SMA کے علاج، جینیاتی ٹیسٹنگ، اور مریضوں کے لیے سپورٹ نیٹ ورک کو مضبوط بنانے کی فوری ضرورت ہے۔
