تزین اختر نے ایران سے توانائی و تجارتی روابط مضبوط بنانے پر زور دیا، پابندیوں کو قومی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا
اسلام آباد: معروف صحافی اور روزنامہ پاکستان اِن دی ورلڈ کے ایڈیٹر تزین اختر نے اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان–ایران کنیکٹیویٹی فورم سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنی معاشی ترجیحات کو خطے کے ہمسایہ ممالک خصوصاً ایران کے ساتھ ازسرِنو ترتیب دینا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ حقیقی قومی ترقی بیرونی طاقتوں پر انحصار سے نہیں بلکہ علاقائی تعاون سے ممکن ہے۔
تزین اختر نے تقریب کے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا جن میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر ڈاکٹر رضا امیری مقدم اور ازبکستان کے نائب سربراہِ مشن روشان علوموف شامل تھے۔ انہوں نے سینٹر آف پاکستان اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز (COPAIR) کی چیئرپرسن محترمہ آمنہ ملک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے بروقت اور معنی خیز مکالمے کا انعقاد کیا جس کا موضوع "کنیکٹیویٹی اور تعاون” تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران صدیوں پر محیط مشترکہ تاریخ اور ثقافت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ "ہم ایک خطہ تھے، ہمارا رشتہ نیا نہیں۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے اپنے پڑوسیوں کے بجائے سمندروں پار اتحادوں کو ترجیح دی اور قدرتی شراکت داروں سے دوری اختیار کی۔”
تزین اختر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی بڑی وجہ درآمدی توانائی پر انحصار ہے۔ "اپنے ماہانہ بجٹ پر نظر ڈالیں، سب سے بڑا بوجھ کیا ہے؟ نمبر ایک: پٹرول۔ نمبر دو: بجلی۔ اور یہ دونوں چیزیں ہماری سرحد کے اُس پار ایران میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ پندرہ سال قبل ایران کی گیس پائپ لائن پاکستانی سرحد تک پہنچ چکی تھی جبکہ گوادر کی روشنیاں آج بھی ایرانی بجلی سے جگمگا رہی ہیں۔ ایران مزید توانائی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن پاکستان نے اب تک اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
تزین اختر نے کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی قومی پالیسی امریکی و سعودی مفادات کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ "ہم آزادانہ فیصلے کرنے سے ہچکچاتے ہیں، حالانکہ ایران کے وسائل ہمارے بالکل قریب موجود ہیں۔”
انہوں نے امریکی پابندیوں کو محض ایک بہانہ قرار دیتے ہوئے کہا، "پابندیاں خوراک اور ادویات جیسی بنیادی انسانی ضرورتوں پر لاگو نہیں ہوتیں، تو توانائی، بجلی اور ایندھن بھی انہی ضروریات میں شامل ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے باعث لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔ یہ اب پالیسی نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے۔”
تزین اختر نے کہا کہ اگر پاکستان ایران سے سستا ایندھن اور بجلی حاصل کرے تو عام گھرانوں کے اخراجات فوراً کم ہو سکتے ہیں اور درمیانہ طبقہ دوبارہ مستحکم ہو سکتا ہے۔ "ہماری زندگی کے آدھے مسائل اس وقت حل ہو جائیں گے جب پٹرول اور بجلی سستی ہو جائے گی۔”
انہوں نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ دباؤ کے باوجود پاکستان کے ساتھ تعاون کی پیشکش برقرار رکھی ہے۔ ماضی میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ ایران نے سیاسی عزم کا اظہار کیا، مگر عملی پیشرفت تاحال باقی ہے۔
تزین اختر نے یاد دلایا کہ پاکستان، ایران اور ترکی نے 1960 کی دہائی میں ریجنل کوآپریشن فار ڈیولپمنٹ (RCD) کی بنیاد رکھی تھی، جو بعد میں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ECO) میں تبدیل ہوئی۔ "پاکستان اور ایران نے دہائیوں پہلے علاقائی رابطے کی بنیاد رکھی تھی۔ ہمیں صرف اُس وژن کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔”
انہوں نے آخر میں پاکستانی قیادت سے اپیل کی کہ وہ قومی مفاد میں خود مختار فیصلے کرے۔ "ایران تیار ہے۔ اب فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے۔ ہم یا تو غیر ملکی طاقتوں کے خادم بنے رہیں یا اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر علاقائی اتحاد کے ذریعے معیشت کو دوبارہ زندہ کریں۔”
