یونیسف کی رپورٹ: بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے میں خوراکی صنعت کا کردار بے نقاب
یونیسف کی ایک نئی اور اہم رپورٹ نے دنیا بھر میں بچوں کی صحت پر بڑھتے ہوئے خطرات کی گھنٹی بجا دی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر صحت مند اور منافع پر مبنی خوراکی ماحول بچوں میں موٹاپے اور وزن بڑھنے کی عالمی وبا کو ہوا دے رہا ہے۔ "Feeding Profit: How food environments are failing children” کے عنوان سے جاری کی گئی یہ رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ الٹرا پراسیسڈ فوڈ اور مشروبات بنانے والی صنعت کی جارحانہ پالیسیوں اور مارکیٹنگ نے بچوں کی صحت کو سنگین بحران میں ڈال دیا ہے، یہاں تک کہ وہ ممالک بھی متاثر ہورہے ہیں جو ابھی تک غذائی قلت کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پانچ سے انیس سال کی عمر کے ہر پانچ میں سے ایک بچہ یا نوجوان زائد وزن کا شکار ہے۔ سن 2000 سے اب تک یہ تعداد تقریباً دوگنی ہوگئی ہے، یعنی 194 ملین سے بڑھ کر 391 ملین تک جا پہنچی ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں میں موٹاپے کی شرح کم وزن کی شرح سے زیادہ ہوگئی ہے، جو عالمی سطح پر غذائی بحران کے نقشے میں ایک تاریخی اور تشویشناک تبدیلی ہے۔
ترقی پذیر اور کم آمدنی والے ممالک سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے زائد وزن والے بچوں میں 81 فیصد ایسے ممالک میں رہتے ہیں، جب کہ سن 2000 میں یہ شرح 66 فیصد تھی۔ یونیسف کے مطابق یہ تیز رفتار اضافہ غیر صحت مند اور سستی خوراک پر بڑھتے ہوئے انحصار کا براہ راست نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے خوراکی ماحول پر شکر والے مشروبات، نمکین اسنیکس اور فاسٹ فوڈ نے قبضہ جما لیا ہے، جو صحت مند خوراک کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے دستیاب اور سستے ہیں۔ کئی ممالک کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ کم عمر بچے روزانہ میٹھی اشیاء یا مشروبات کھاتے ہیں، جبکہ 60 فیصد نوجوانوں نے صرف ایک دن میں ایک سے زائد میٹھی اشیاء استعمال کیں۔
ڈیجیٹل مارکیٹنگ نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ یونیسف کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 13 سے 24 سال کی عمر کے 75 فیصد نوجوان صرف ایک ہفتے کے اندر غیر صحت مند خوراک کی آن لائن تشہیر کے سامنا کرچکے تھے، اور اس میں سوشل میڈیا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ فوڈ اور بیوریج انڈسٹری عوامی صحت اور انسانی بحرانوں کو اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ کووڈ-19 وبا کے دوران کمپنیوں نے اپنی ڈیجیٹل مہمات کو تیز کیا اور اپنی مصنوعات کو "ضروری اشیاء” کے طور پر پیش کیا، اکثر کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی کے پردے میں۔
یونیسف نے اس بحران کے جواب میں فوری اور بڑے پیمانے پر اقدامات کی اپیل کی ہے۔ ایجنسی نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اسکولوں میں غیر صحت مند خوراک کی مارکیٹنگ پر سخت قوانین نافذ کیے جائیں، پالیسی سازی کو صنعت کے اثر و رسوخ سے بچایا جائے، اور صحت مند مقامی خوراک کو زیادہ دستیاب اور سستا بنانے کے لیے سبسڈی دی جائے۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ بہتر ڈیٹا اور نگرانی کے نظام قائم کیے جائیں تاکہ بچوں کی خوراک اور پالیسی کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے، اور خاندانوں اور برادریوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ صحت مند ماحول کا مطالبہ کرسکیں۔
یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے زور دیا کہ اگر حکومتیں قیادت کریں اور سول سوسائٹی و نجی شعبے کے ساتھ مل کر اقدامات کریں تو ہر بچے کو صحت مند اور متوازن خوراک تک رسائی دی جاسکتی ہے۔ رپورٹ میں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر دنیا نے فوری اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے تو لاکھوں بچوں کی صحت اور مستقبل کو صرف صنعت کے منافع کی خاطر قربان کر دیا جائے گا۔
