پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے سنگین بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں ملک کی 20 فیصد آبادی کو ذہنی اور نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے، لیکن تمام پاکستان میں ماہرینِ نفسیات کی تعداد محض 600 ہے۔ اس کیفیت نے معاشرتی مسائل اور عوامی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جسے حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اسلام آباد میں “مینٹل ہیلتھ اینڈ سائیکو سوشیل سپورٹ امپلی مینٹیشن پلان 2025-2030” کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ شہری ذہنی اور جذباتی طور پر صحت مند ہوں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرتی ترقیہ سڑکوں یا پلوں سے نہیں، بلکہ ذہنی طور پر مضبوط معاشرے سے آتی ہے۔ ان کے مطابق، پاکستانی معاشرہ دہشت گردی، انتہاپسندی اور سماجی تقسیم کے شدید نفسیاتی اثرات برداشت کر رہا ہے اور اس کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
تقریب میں اہم اعداد و شمار بھی سامنے آئے کہ معاشرتی بدنامی اور ذہنی صحت سے متعلق غلط فہمیاں، متاثرین کے علاج اور بروقت سپورٹ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پروفیسر احسن اقبال نے ذہنی صحت کے نئے منصوبے کے تحت تین اہم ترجیحات کا اعلان کیا: پہلی یہ کہ ذہنی صحت کو بنیادی طبی سہولیات کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہر سطح پر فوری مدد حاصل ہو سکے، دوسری اساتذہ کو تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ طلبہ کی ذہنی حالت کو پہچان کر ان کی بروقت رہنمائی کر سکیں، اور تیسری ترجیح خاندانی اور سماجی تعاون کے نظام کی بحالی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی تنہائی اور سماجی کٹاؤ کا مقابلہ ممکن ہو۔
اس موقع پر قومی ٹیکنیکل ایڈوائزر برائے ذہنی صحت، ڈاکٹر اسماء ھمایوں نے اس منصوبے کو پاکستان میں ذہنی صحت کے خلا کو دور کرنے کی تاریخی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک مقامی چار سطحی ماڈل پر مشتمل ہے جس میں کمیونٹی ورکز کی تربیت سے لے کر ماہر نفسیات تک سائنسی اور ثقافتی طور پر مناسب سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔
نئے پروگرام MHPSS (2025-2030) کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کا پہلا مقامی ماڈل ہے، جس کے نفاذ کے لیے اسٹریٹجک پلاننگ، کوآرڈی نیشن اور تکنیکی معاونت کے ساتھ مرکزی ویب پورٹل، لرننگ مینجمنٹ سسٹم، تین موبائل ایپس اور مخصوص ٹیلی کام سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس منصوبے کو پہلے اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں کامیابی سے آزمایا گیا اور اب پورے ملک میں اس کا دائرہ بڑھایا جائے گا۔ مرحلہ وار وسعت اور مضبوط مانیٹرنگ سے اس کی پائیداری کو یقینی بنایا جائے گا۔
منصوبہ محض ذہنی امراض کے علاج تک محدود نہیں، بلکہ معاشرتی دباؤ اور مختلف چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور افراد کی مجموعی کارکردگی کو فروغ ملتا ہے۔ اس طرح یہ منصوبہ پاکستان میں ذہنی صحت کے شعبے کو مضبوط کرنے اور معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ایک امید افزا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
