اقتدار کا حقیقی مالک

newsdesk
5 Min Read
تاریخ کے حکمران عارضی رہے، اصل اقتدار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ خلیفہ عمرؓ کی عدل کی مثال اور آج کی غربت و جوابدہی پر روشنی۔

اصل طاقت کس کے پاس؟

قیصر و کسریٰ سے آج کے حکمرانوں تک — ایک تلخ حقیقت

تحریر: قیصر خان

دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار بادشاہوں، سلاطین اور حکمرانوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی شان و شوکت اور جاہ و جلال سے زمانے کو حیران کیا۔ کبھی رومی قیصر کی دھاک براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی، کبھی فارسی کسریٰ کے رُعب سے زمانہ لرزتا تھا۔ مگر تاریخ ہمیں ایک سیدھا سا سبق دیتی ہے: نہ قیصر رہا، نہ کسریٰ۔ نہ تخت رہے اور نہ تاج۔ اصل بادشاہت ہمیشہ سے اللہ ربّ العالمین کی تھی اور ہمیشہ اسی کی رہے گی۔

آج کی دنیا پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت دوبارہ وہی صدیاں پرانی غلطیاں دہرا رہی ہے۔ آج کا حکمران اقتدار، اختیار اور حکومت کے نشے میں ڈوبا ہوا سمجھتا ہے کہ اس کا تخت ہمیشہ قائم رہے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی تخت بہت کمزور اور عارضی ہوتے ہیں۔ ان پر بیٹھا شخص چاہے لمحہ بھر کے لیے بہت بڑا دکھائی دے، مگر جلد ہی تاریخ کی گرد میں گم ہو جاتا ہے۔

اختیار — مگر کس کے خلاف؟

حضرت عمرؓ کا طرزِ حکمرانی — طاقت نہیں، امانت

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو عدل و انصاف کی سب سے درخشاں مثال دورِ خلافتِ فاروقیؓ میں نظر آتی ہے۔ آپؓ حکمران تھے، مگر تخت و تاج کا غرور ان کے قریب نہ تھا۔ رات کی تاریکی میں گلیوں اور بستیوں کا جائزہ لیتے کہ کہیں کوئی بھوکا نہ سو جائے، کہیں کوئی مظلوم انصاف سے محروم نہ رہ جائے۔

ان کے نزدیک قیادت حکومت نہیں، ایک بھاری امانت تھی۔ آپؓ نے فرمایا تھا:
“اگر فرات کے کنارے ایک بکری بھی پیاس سے مرگئی تو عمر اس کا جواب دہ ہوگا۔”

یہی احساسِ ذمہ داری ریاستوں کو مضبوط اور قوموں کو بلند کرتا ہے۔ ان کا عدل طاقتور کے آگے جھکتا نہ تھا اور کمزور کے لیے ڈھال بن جاتا تھا۔ اگر آج کے حکمران خلافتِ فاروقیؓ سے ایک ہی سبق اپنا لیں تو نہ ظلم باقی رہے، نہ بے بسی، نہ محرومی۔

مگر المیہ یہ ہے کہ آج طاقت کا مظاہرہ طاقتور کے خلاف نہیں، صرف کمزور پر ہوتا ہے۔ ریاست کا فرض کمزور کا سہارا بننا ہے، مگر ہر جگہ الٹی تصویر نظر آتی ہے۔ غریب کے لیے سخت قانون، اور طاقتور قانون سے بالاتر۔ گلیوں، تھانوں اور افسروں کے دروازوں پر جہاں بھی کوئی مجبور انسان جاتا ہے، طاقت صرف اسی پر آزمایا جاتا ہے۔

یہ رویہ ہمیں قیصر و کسریٰ کے دور کی یاد دلاتا ہے — اور تاریخ کا فیصلہ آج بھی وہی ہے:
جو ظلم کرتا ہے، مٹ جاتا ہے۔
جو کمزور کا حق چھینتا ہے، مثال بن جاتا ہے۔

غربت — ایک مستقل زخم

آج کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ کروڑوں انسان دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ مہنگائی نے عزتِ نفس تک چھین لی ہے۔ روٹی، روزگار اور چھت — یہ بنیادی ضرورتیں آج بھی لاکھوں کے لیے خواب ہیں۔ اگر ریاست واقعی قیصر و کسریٰ سے کچھ سیکھنا چاہتی ہے تو پہلے اپنے کمزور ترین شہریوں کی طرف دیکھے۔ قومیں محلوں پر نہیں، غریبوں کے آشیانوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔

حکمرانی — اعزاز یا آزمائش؟

حکمران بننا عزت نہیں، ایک کڑی آزمائش ہے۔ جو شخص قوم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے اسے اللہ کی عدالت سے ڈرنا چاہیے۔ دنیا کے فیصلے بدل سکتے ہیں، مگر اللہ کا فیصلہ کبھی نہیں بدلتا۔

ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا:
طاقت ہتھیار سے نہیں، انصاف سے آتی ہے۔
حکومت تخت سے نہیں، خدمت سے بنتی ہے۔
دولت خزانے سے نہیں، احساسِ ذمہ داری سے بڑھتی ہے۔

اصل بادشاہ صرف ایک

کالم کے اختتام پر ذہن میں صرف ایک حقیقت گونجتی رہتی ہے:

قیصر مٹ گیا۔
کسریٰ کھو گیا۔
دنیا کے حکمران بدلتے رہے۔
مگر زمین و آسمان کی بادشاہت ہمیشہ صرف ایک ہی اللہ کے پاس رہی۔

یہ دنیا عارضی ہے۔ منصب عارضی ہیں۔ اقتدار لمحاتی ہے۔
مگر اللہ کا حکم، اس کا نظام اور اس کی پکڑ — ابدی اور لازوال ہے۔

اگر آج کے حکمران انصاف کا راستہ چن لیں تو تاریخ ان کے نام سنہری حروف میں لکھے گی۔
اور اگر ان کا سفر ظلم، غفلت اور تکبّر سے بھرا رہا تو ان کا انجام بھی قیصر و کسریٰ سے مختلف نہ ہوگا۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے