سکستھ روڈ تعلیمی اداروں کا مرکز شہری مسلسل اذیت میں

newsdesk
7 Min Read
راولپنڈی کے چھٹے روڈ پر باری باری کھدائی اور غیر مربوط منصوبہ بندی نے طلبہ اور شہریوں کی زندگی مشکل بنا دی، فوری تفتیش اور مرمت ضروری ہے

سکستھ روڈ تعلیمی اداروں کا مرکز شہری مسلسل اذیت میں
تحریر: ظہیر احمد اعوان
راولپنڈی کی سکسٹھ روڈ شہر کے اہم ترین تعلیمی مراکز کے درمیان واقع ہے، روزانہ لاکھوں طلبہ، والدین اور عام شہری اس راستے کو استعمال کرتے ہیں لیکن سہولت دینے والے ادارے ہی شہریوں کے لیے اذیت بن چکے ہیں۔ پہلے قومی خزانے سے سکسٹھ روڈ کی نالیاں اور سڑکیں تعمیر کی گئیں اور منصوبے کو مکمل قرار دیا گیا، کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کو اچانک خیال آیا کہ سڑک چوڑی کی جائے، اسی مقصد کے لیے دوبارہ کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کیے گئے اور نئی کھدائی شروع ہوگئی۔ ابھی یہ کام جاری تھا کہ واسا نے بھی بغیر منصوبہ بندی کے پانی کی پائپ لائنیں ڈالنے کا منصوبہ شروع کردیا اور دونوں ادارے ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر بھاری مشینری کے ساتھ کام شروع کر بیٹھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سکسٹھ روڈ عملی طور پر نوگو ایریا بن گئی۔ نہ پیدل چلنا ممکن رہا، نہ ٹریفک کا گزرنا، بڑے بڑے گڑھے، کھڑا پانی، دھول مٹی اور گھنٹوں تک پھیلا ٹریفک جام اس علاقے کی روزمرہ تصویر بن گیا۔ دونوں اطراف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ، ان کے والدین اور عام شہری روز اذیت میں مبتلا ہیں، بچے سکول پہنچنے سے قبل تھکاوٹ، خوف اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، والدین بے بسی کے عالم میں گاڑیوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور عوامی وسائل سے چلنے والے اداروں کے افسران دفاتر میں آرام سے بیٹھے یہ سب تماشہ دیکھتے ہیں۔یہ مسئلہ صرف راولپنڈی یا پاکستان کا نہیں، دنیا کے ہر مہذب ملک میں شہری منصوبہ بندی کے بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سڑک، نکاسی آب، گیس، بجلی اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبے ایک مرکزی ماسٹر پلان کے تحت ترتیب دیے جاتے ہیں تاکہ ایک ہی جگہ بار بار کھدائی نہ ہو، وقت اور قومی وسائل کا ضیاع نہ ہو اور شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر نہ ہو۔ وہاں متعلقہ ادارے پہلے باہمی مشاورت کرتے ہیں، عوامی اثرات کا حساب لگایا جاتا ہے، تعمیراتی کام متبادل راستوں کے ساتھ طے کیے جاتے ہیں اور شہریوں کو بروقت اطلاع دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایم سی آر اور واسا جیسے ادارے کسی اجتماعی منصوبہ بندی کے بغیر ایک کے بعد ایک کھدائی شروع کردیتے ہیں، کروڑوں روپے دوبارہ خرچ ہوتے ہیں، سڑکیں توڑی جاتی ہیں اور شہریوں کو مشکلات کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس غیرذمہ داری کے نتیجے میں قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے، شہر بدصورت بنتا ہے اور صحت کے سنگین خطرات پیدا ہوتے ہیں۔سکسٹھ روڈ کی موجودہ حالت اس غفلت کی بدترین مثال ہے۔ بارش یا لیکیج کے بعد بڑے گڑھوں میں پانی کھڑا ہوجاتا ہے، بدبو پھیلتی ہے، مچھر پیدا ہوتے ہیں، ڈینگی سمیت دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ روزانہ اس اذیت سے گزرتے ہیں جبکہ دو سرکاری اداروں کے افسران یا تو فائلوں میں مصروف ہیں یا ذمے داری سے نظریں چُرا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑے شہروں کے ایسے علاقوں کو خصوصی ترجیح دی جاتی ہے جہاں تعلیمی ادارے، ہسپتال یا عوامی مراکز ہوں کیونکہ یہاں معمولی خلل بھی بڑی تعداد میں لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن راولپنڈی میں عوامی اہمیت کا علاقہ شہریوں کی آزمائش گاہ بن چکا ہے۔اصل مسئلہ منصوبہ بندی کا نہ ہونا نہیں بلکہ منصوبہ بندی کو نظرانداز کرنا ہے۔ اگر ایم سی آر کے پاس سڑکوں کے منصوبے تھے تو واسا کے منصوبے اسی کے مطابق ترتیب دینے چاہیے تھے۔ اگر پانی کی پائپ لائنیں ضروری تھیں تو پہلے سڑکوں کی تعمیر کیوں کی گئی؟ اگر فنڈز پہلے ہی استعمال ہوچکے تھے تو دوبارہ اسی جگہ قومی خزانہ کیوں لگایا جا رہا ہے؟ دنیا میں ناکام پراجیکٹس پر ذمہ داروں سے جواب طلب کیا جاتا ہے، مالی نقصان کی تحقیقات ہوتی ہے اور مستقبل کے لیے اصلاحات کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں نہ احتساب ہے، نہ شفافیت، نہ عوامی مفاد کو اہمیت۔شہریوں کی زندگی آسان کرنے کے ذمہ دار ادارے جب شہریوں کے لیے اذیت بن جائیں تو بات صرف شکایت تک محدود نہیں رہتی، یہ بنیادی حقوق کا سوال بن جاتا ہے۔ عوام ٹیکس دیتے ہیں، وہ خدمات لیتے ہیں، یہ ان پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ سکسٹھ روڈ کی مثال واضح کرتی ہے کہ بغیر منصوبہ بندی ترقیاتی کام کرنا ترقی نہیں تباہی ہے، اس سے نہ صرف مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ سماجی اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ بچے خوفزدہ، والدین بےبس اور عوام غصے میں ہیں جبکہ تعمیراتی سائٹ پر کام کی رفتار ایسی ہے جیسے یہ سہولت نہیں سزا ہو۔راولپنڈی کے شہری وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس منصوبے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی ہو اور سکسٹھ روڈ کا کام ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرایا جائے۔ جس شہر کے وسط میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے موجود ہوں اس کے راستے محفوظ، صاف اور قابلِ استعمال ہونا ضروری ہے۔ یہ صرف ایک سڑک نہیں، مستقبل کے بچوں، نوجوانوں اور شہریوں کی روزمرہ زندگی کا راستہ ہے۔ ترقی منصوبہ بندی سے ہوتی ہے، جلد بازی اور غفلت سے نہیں۔ سکسٹھ روڈ کی یہ بدحالی ہمارے شہری نظام کی ناکامی ہے اور اس کی اصلاح ریاستی ذمہ داری۔

Read in English: Sixth Road Rawalpindi Center of Education, Center of Suffering

Share This Article
1 تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے