نوجوانوں کے تحفظ کے لیے اشتہارات اور تصویری انتباہات ضروری

newsdesk
5 Min Read
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ پر منعقدہ نشست میں شرکاء نے اشتہارات پر پابندی اور تصویری انتباہات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔

مرتضیٰ سولنگی کا نوجوانوں کے تحفظ کے لیے بہتر ٹی اے پی ایس ریگولیشنز اور گرافک ہیلتھ وارننگز کی اہمیت پر زور

اسلام آباد: سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (اسپارک) نے ڈبلیو ایچ او کے “گلوبل ٹوبیکو ایپیڈیمک رپورٹ 2025” اور تمباکو کے اشتہارات، پروموشن اور اسپانسرشپ (TAPS) کے ساتھ ساتھ گرافک ہیلتھ وارننگز (GHWs) سے متعلق بہترین عالمی تجربات پر ایک مباحثہ منعقد کیا، جس کا مقصد پاکستان میں ڈبلیو ایچ او فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (FCTC) اور MPOWER اقدامات کے نفاذ کا جائزہ لینا تھا۔

صدورِ محفل کے طور پر خطاب کرتے ہوئے صدرِ پاکستان کے ترجمان مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کی تازہ ترین رپورٹ یاد دہانی ہے کہ تمباکو اب بھی ایک بڑا صحت عامہ کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان تمباکو کے اشتہارات، پروموشن اور اسپانسرشپ (TAPS) میں مزید کمی لاکر اور گرافک ہیلتھ وارننگز (GHWs) کی نمائش کو بڑھا کر نوجوانوں کو صحت کے قابلِ گریز خطرات سے بہتر طور پر محفوظ کر سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تمباکو ہر سال دنیا بھر میں 80 لاکھ سے زائد اموات کا باعث بنتا ہے، جو ایچ آئی وی، تپِ دق اور ملیریا کی مشترکہ اموات سے زیادہ ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ 70 لاکھ افراد تمباکو استعمال کرتے ہیں اور سالانہ 1 لاکھ 66 ہزار اموات تمباکو نوشی سے منسوب ہیں۔ مرتضیٰ سولنگی نے معاشرے اور معیشت پر اس کے گہرے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آگاہی، تعلیم اور جدید عالمی پالیسیوں کے موثر اطلاق سے پاکستان نمایاں پیش رفت کر سکتا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے این ایچ ایس آر اینڈ سی کے چیئرمین ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے کہا کہ رپورٹ کے اعداد و شمار نوجوانوں کے تحفظ پر خصوصی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پروموشنل سرگرمیاں، دلکش پیکجنگ، ایونٹس کے ساتھ لنکیجز اور آن لائن نمائش نوجوانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ملانی نے بتایا کہ جن ممالک نے جامع TAPS پابندیاں نافذ کیں، وہاں خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو استعمال میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ انہوں نے GHWs کو مضبوط بنانے اور پالیسی میں بہتری کے اقدامات پر زور دیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ اسلم سومرو نے کہا کہ اگرچہ پاکستان نے قابلِ تعریف پیش رفت کی ہے، لیکن مزید مضبوط اقدامات سے عوام کے تحفظ میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ واضح اور مسلسل ریگولیشنز ضروری ہیں تاکہ TAPS کے ایسے خلا پیدا نہ ہوں جو تمباکو کنٹرول میں رکاوٹ بن سکیں۔ ڈاکٹر شازیہ نے توجہ دلائی کہ گرافک ہیلتھ وارننگز سگریٹ نوشوں کو اپنے رویے پر غور کرنے اور نوجوانوں کو تمباکو شروع کرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سابق مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا کہ TAPS اب بھی توجہ کا ایک اہم شعبہ ہے، بالخصوص پوائنٹ آف سیل مارکیٹنگ اور آن لائن نمائش جیسے چیلنجز برقرار ہیں۔ انہوں نے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جن ممالک نے TAPS پر موثر کنٹرول نافذ کیا، وہاں نوجوانوں میں تمباکو کے استعمال میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی۔

اسپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے بتایا کہ پروموشنل سرگرمیاں موجودہ پابندیوں کے باوجود صارفین کے رویے کو باریک طریقے سے متاثر کرتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن ممالک نے TAPS کی ہر شکل پر مکمل پابندی عائد کی، وہاں نوجوانوں میں تمباکو استعمال میں نمایاں کمی سامنے آئی۔

اجلاس میں پالیسی سازوں، صحافیوں، سول سوسائٹی، ماہرینِ تعلیم، میڈیا پروفیشنلز اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پاکستان میں گرافک ہیلتھ وارننگز اور TAPS قوانین پر عمل درآمد کا جائزہ لیا اور تمباکو کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے مربوط اقدامات کی اہمیت پر زور دیا۔

Read In English: Murtaza Solangi Highlights Need for Stronger TAPS Regulations and Graphic Health Warnings to Protect Youth

Share This Article
1 تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے