پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں پر تنازعہ معمولی سیاسی اختلاف نہیں بلکہ قومی بقا سے جڑا مسئلہ بن چکا ہے؛ بھارت کے سرکردہ آبی منصوبے اور ندی نالوں کے بہاؤ میں یکطرفہ تبدیلیاں پاکستان کی زراعت، توانائی اور غذا کی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور اس تنازعے کا حل قانونی، سفارتی اور تکنیکی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
عہدۂ معاہدہ اور تاریخی پس منظر: انڈس واٹرز ٹریٹی کے تحت دریائے سندھ کے бассин کی تقسیم ہوئی، جس میں مشرقی دریاؤں کی ذمہ داری بھارت کو اور مغربی دریاؤں کی حفاظت پاکستان کو سونپی گئی۔ طویل عرصے تک یہ معاہدہ امن کی مثال سمجھا جاتا رہا مگر موجودہ حالات میں معاہدے کی حدود اور شقوں کی تشریح پر بڑھتے ہوئے اختلافات نے دونوں فریقین کے درمیان تناؤ بڑھایا ہے۔
بھارت کے منصوبے اور اختلافات: بھارت نے مغربی دریاؤں پر متعدد ہائیڈرو پاور اور بند منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں بیگلی ہار، کشنگنگا اور رٹلے جیسے منصوبے نمایاں ہیں۔ معاہدے کے تحت کچھ تعمیری کام ممکن ہیں مگر وہ مخصوص ضوابط اور بہاؤ کے ضابطوں کے تحت ہی قابل قبول ہیں۔ کشنگنگا منصوبے کی وجہ سے نیلم جھیل کے بہاؤ میں تبدیلی ہوئی اور بین الاقوامی ثالثی نے کم از کم بہاؤ کے پابند فیصلے کیے، مگر عملی اثرات مقامی زراعت پر دکھائی دیے۔ رٹلے منصوبے پر بھی پاکستان نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ مخصوص اوقات میں پانی کا بہاؤ تبدیل کر کے پیداوار متاثر کی جا سکتی ہے، جو آبی وسائل کو جغرافیائی ہتھیار بنانے کے مترادف ہے۔
عسکری و حکمتِ عملی تناظر: بھارت کا دریاؤں کے اوپری حصّوں پر کنٹرول امن کے دوران خطرہ ہے مگر جنگ کی صورت میں یہی کنٹرول مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض بھارتی سیاسی بیانات نے اس خدشے کی بازگشت پیدا کی ہے کہ پانی کو دباؤ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے معاہدے کی روح کم و بیش متاثر ہوئی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی، برفانی پگھلاؤ اور بارشوں میں تبدیلیاں اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں اور پاکستان پہلے ہی پانی کے شدید دباؤ کا شکار ہے۔
پاکستان پر اثرات: انڈس بیسن پاکستان کی زرعی پیداوار کا مرکزی ستون ہے اور چند دریاؤں کی بندش یا بہاؤ میں تبدیلی سے پنجاب کی فصلیں، خوراک کی قیمتیں اور کسانوں کی روزی متاثر ہو سکتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی و نیم خشک علاقوں میں نمک زاری، صحرا بننے کا عمل اور میٹھا پانی کم ہونے جیسے مسائل شدت اختیار کر سکتے ہیں، جو محض سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر بحران کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
قانونی و سفارتی رخ: پاکستان نے بین الاقوامی فورموں میں اپنی تشویش کا اظہار کیا مگر عملی پیش رفت محدود رہی۔ عالمی بینک بطور ضامن عموماً محتاط رویہ اختیار کرتا رہا اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات طویل اور بعض اوقات غیر قطعی رہے ہیں۔ اس دوران بھارت سفارتی محاذ پر خود کو ذمہ دار اوپری دریائے ملک کے طور پر ظاہر کرتا ہے، مگر زمین پر ہونے والے اقدامات اس تصویر سے مطابقت نہیں رکھتے۔
متبادل راستے اور حکمتِ عملیاں: پاکستان کو متعدد محاذوں پر متوازن حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے، کثیرالجہتی سفارتی کوششیں تیز کی جائیں، اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور بین الاقوامی مالی اداروں کے ذریعے عالمی دباؤ بڑھایا جائے تاکہ معاہدے کی پاسداری یقینی بنے۔ دوسرے، جہاں معاہدے کی خلاف ورزی کا شبہ ہو، قانونی چارہ جوئی اور ثالثی کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور سابقہ فیصلہ جات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ تیسرے، گھریلو طور پر پانی کے ذخیرے، جدید آبپاشی اور پانی بچانے والی ٹیکنالوجیوں میں سرمایہ کاری کر کے داخلی کمزوریوں کو کم کیا جائے۔ چوتھے، بند منصوبوں اور دریاوں کے بہاؤ کی شفاف اور سائنسی نگرانی کے لیے آزاد اداروں کو بااختیار بنایا جائے تاکہ غیر جانبدار شواہد بین الاقوامی سطح پر پیش کیے جا سکیں۔ پانچویں، عوامی سطح پر شعور بیدار کیا جائے تاکہ پانی کے محفوظ استعمال اور قومی مفاد کی حمایت میں معاشرتی قوت بن سکے۔
اختتامی کلمہ: پانی انسانیت کا بنیادی سرمائے میں شمار ہوتا ہے اور اسے تنازعہ کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ بھارت کی پالیسی اگرچہ خطے میں سخت نتائج کا باعث بن سکتی ہے، اس کے مقابلے میں پاکستان کو مضبوط، متوازن اور بیدار انداز میں اپنی سلامتی و خودمختاری کا دفاع کرنا ہوگا، مگر آخر کار مستقل حل تبھی ممکن ہے جب دونوں اطراف تعاون کی راہ اختیار کریں نہ کہ پانی کو ہتھیار بنا کر۔
