پاکستان میں پانی کی سلامتی کے لیے فریقین کی تربیت مکمل

newsdesk
3 Min Read
پاکستان کونسل برائے تحقیق برائے آبی وسائل اور یونسکو کی مشترکہ ورکشاپ میں سائنس پالیسی رابطہ مضبوط کر کے پانی کی سلامتی کے لیے صلاحیت سازی مکمل ہوئی۔

پاکستان کونسل برائے تحقیق برائے آبی وسائل اسلام آباد میں منعقدہ ورکشاپ ۳ دسمبر ۲۰۲۵ کو اختتام پذیر ہوئی جس میں تعلیمی حلقوں، محققین، طلبہ اور غیر سرکاری تنظیموں نے بھرپور شرکت کی۔ یہ پروگرام پانی کی سلامتی کے حساس موضوع پر سائنس پالیسی رابطہ مضبوط کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں حل تلاش کرنے کے مقصد سے منعقد کیا گیا تھا۔ڈاکٹر حفضہ رشید نے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے زور دیا کہ پانی کے مسائل کے حل کے لیے مختلف فریقین کی فعال شمولیت ناگزیر ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ سائنس پالیسی رابطہ سے محققین، پالیسی ساز اور میدان کے عملدرآمد کنندگان کے درمیان مشترکہ فہم پیدا ہوتی ہے جو پائیدار آبپاشی اور وسائل کی منظم تقسیم میں مدد دے گی۔فواد پاشایف نے پاکستان کونسل کے تحقیقی عزم کو سراہا اور یونسکو کی جانب سے سائنس اور عملی میدان کے درمیان رابطہ مضبوط کرنے پر جاری حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات موسمیاتی طور پر حساس ملکوں میں علم کا تبادلہ اور لچک پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تقنیقی نشست میں انجینئر محمد کاشف منظور نے تفصیلی بیان دیا جس میں بتایا گیا کہ مضبوط سائنس پالیسی رابطہ کس طرح رابطہ کاری، استعداد سازی اور مربوط طریقہ کار کو فروغ دے کر قومی سطح پر پانی کے انتظام کو بہتر بنا سکتا ہے۔ شرکاء نے اُن کے بیان کی گہرائی اور عملی رہنمائی کو اہم قرار دیا اور کہا کہ یہ نقطہ نظر تحقیق کو عملی حل سے جوڑنے کی تحریک دیتا ہے۔جناب احمد کمال، جو وفاقی سیلاب کمیشن کے سابق سربراہ اور وزارت آب و وسائل کے چیف ایڈوائزر رہے ہیں، نے اپنے کلیدی خطاب میں سائنس کو پالیسی میں ضم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پیچیدہ آبی مسائل کے حل کے لیے ادارہ جاتی تعاون اور مربوط حکمت عملی ضروری ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے حکومت کی جانب سے ڈیٹا پر مبنی فیصلوں اور بہتر گورننس کی جانب کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کیا۔انجینئر اصغر علی ہیلپوٹو نے تکنیکی نشست کے مہمان خصوصی کے طور پر شرکاء کی شرکت کا اعتراف کیا اور کہا کہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے درمیان مسلسل تعاون سے آبی وسائل کے مربوط انتظام اور پالیسی عملدرآمد میں بہتری آئے گی۔ ورکشاپ کے اختتام پر منتظمین نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ پیدا ہونے والی شراکتیں اور تجاویز مستقبل میں مربوط عمل اور پانی کی سلامتی کے لیے کارگر ثابت ہوں گی۔یہ تقریب اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ سائنس پالیسی رابطہ کو مضبوط کر کے نہ صرف تحقیق اور پالیسی کے درمیان فاصلے کم کیے جا سکتے ہیں بلکہ عملی میدان میں پائیدار اور ثبوت پر مبنی فیصلوں کے ذریعے پاکستان کی پانی کی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے