پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے چانگ چن، چین میں منعقدہ تیرہویں عالمی انٹیگریٹو میڈیسن کانفرنس 2025 میں اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ روایتی طب جدید طبی نظام میں اب پہلے سے زیادہ متعلقہ اور ضروری بن چکی ہے۔ انہوں نے موجودہ دور کے دوائی دریافت کے طریقہ کار کو غیر پائیدار اور غیر شمولیتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ نظام مہنگا اور ناقابل رسائی ثابت ہو رہا ہے۔پروفیسر نے بتایا کہ دنیا کے بڑے حصے کے لوگ، خصوصاً کم آمدنی والے اور درمیانے درجے والے ممالک، روزمرہ کے علاج کے لیے روایتی اور تکمیلی طریقہ علاج پر منحصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طب نہ صرف بيماریوں کے علاج میں معاون ہے بلکہ بیماریوں کی روک تھام اور صحت کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے، اور بُردبار وسائل اور قدرتی ماخذوں کی وجہ سے یہ طویل مدت میں زیادہ پائیدار ثابت ہوتی ہے۔اپنے خطاب میں انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رکن ممالک کو چاہیے کہ روایتی اور تکمیلی طبی نظام کو باقاعدہ صحتی نظام کا حصہ بنائیں تاکہ صحت کے تفاوت میں کمی آئے اور قومی صحتی استحکام مضبوط ہو۔ اس سفارش کو انہوں نے عالمی سطح پر صحت تک مساوی رسائی کے لیے اہم قرار دیا۔پروفیسر ڈاکٹر چوہدری نے پاکستان اور چین کے درمیان روایتی طب کے شعبے میں جاری تعاون پر روشنی ڈالی اور کہا کہ سائنو پاک تعاون مرکز برائے روایتی طب، بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم، جامعہ کراچی میں ایک مثالی ماڈل ہے جو جنوبی جنوبی سائنسی شراکت کی نئی راہیں کھول رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مراکز تحقیق، تکنیکی تبادلے اور صلاحیت سازی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔خطاب کے دوران انہوں نے او آئی سی کامسٹیک کی جانب سے چینی اداروں کے ساتھ جاری مشترکہ کام کا ذکر کیا، جن میں ہونان یونیورسٹی برائے طبِ چین، نینگبو یونیورسٹی، چینی سائنس و ٹیکنالوجی تبادلہ مرکز، ہواوی ٹیکنالوجیز اور سنکیانگ میڈیکل یونیورسٹی شامل ہیں۔ ان شراکتوں کا مقصد روایتی طب اور بایو ٹیکنالوجی میں تحقیق، جدت اور علم کی ترسیل کو فروغ دینا ہے۔پروفیسر نے سوال اٹھایا کہ کیا روایتی طب خلا پر قابو پا سکتی ہے اور جواب میں کہا کہ شواہد پر مبنی روایتی اور تکمیلی علاج بہت سی بیماریوں میں پہلی صف کی درمانی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں، اور خاص طور پر دائمی بیماریاں ایسے شعبے ہیں جہاں یہ طریقے زیادہ موزوں ہیں۔انہوں نے بین الاقوامی شراکت داری، بین الشعبہ جاتی تحقیقی کوششیں اور پالیسی سپورٹ کی ضرورت پر زور دیا تا کہ روایتی طب کے پورے ممکنات کو عالمی صحت، پائیدار ترقی اور شمولیتی جدت کے لیے بروئے کار لایا جا سکے۔ ان خیالات نے کانفرنس کے شرکاء میں روایتی طب کو معیاری شواہد کے ذریعے مضبوطی سے اپنانے کی اہمیت کو واضح کر دیا۔
