استاد کے مقدس روپ میں چھپے جلاد بھڑیے!
تحریر: ظہیر احمد اعوان
تعلیم کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہے اور استاد اس بنیاد کا ستون۔ استاد کو روحانی باپ کہا گیا ہے، اور دینِ اسلام میں اس کا مقام والدین سے بھی بلند قرار دیا گیا ہے۔
لیکن افسوس کہ آج اسی مقدس پیشے میں ایسے عناصر شامل ہو چکے ہیں جنہوں نے “استاد” کے مقدس نام کو داغ دار کر دیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کے مختلف شہروں سے مدارس، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور نجی اکیڈمیوں میں طلباء اور طالبات پر تشدد اور جنسی ہراسگی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔یہ واقعات صرف انفرادی بدکرداری نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہیں۔استاد مقدس ترین پیشہ اسلام نے علم اور استاد کو بلند ترین درجہ عطا کیا۔قرآنِ پاک کی پہلی وحی “اقرأ” یعنی “پڑھ” علم کی فضیلت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:“مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے” (سنن ابن ماجہ) اور ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: “جو شخص کسی کو علم سکھائے، وہ اس کا روحانی باپ ہے۔”یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے استاد کو معاشرے میں عزت، احترام اور عقیدت سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
لیکن جب یہی منصب رکھنے والا شخص اپنی حدود پار کر کے ظلم، زیادتی یا تشدد کرتا ہے، تو وہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام اور معاشرتی اقدار پر حملہ کرتا ہے۔ بڑھتے ہوئے واقعات ایک اجتماعی المیہ ہر روز اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایسی خبریں آتی ہیں کہ کسی اسکول کے استاد نے طالب علم کو مار مار کر زخمی کر دیا، کسی مدرسے میں معصوم بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، کسی اکیڈمی کے استاد نے طالبہ کو ہراساں کیا، یا کسی پروفیسر نے اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کیا۔
یہ واقعات معاشرتی زوال کی انتہا ہیں۔یہ صرف متاثرہ بچے یا خاندان کا المیہ نہیں بلکہ قوم کے مستقبل پر کاری ضرب ہے۔جب والدین اپنے بچوں کو علم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں تو وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ استاد ان کے بچوں کو محفوظ ماحول میں تعلیم دے گا۔ لیکن اب بہت سے والدین خوف زدہ ہیں کہ کہیں وہ اپنے ہی بچوں کو ظلم کے منہ میں نہ بھیج دیں۔یہ سوال سب سے اہم ہے کہ ایسے واقعات بار بار کیوں پیش آ رہے ہیں؟اس کی سب سے بڑی وجہ غیر مؤثر بھرتی کا نظام اور غفلت پر مبنی نگرانی ہے۔اساتذہ کی بھرتی کے وقت ان کے کردار، اخلاق، ذہنی توازن، سابقہ ریکارڈ اور سوشل میڈیا رویے کی جانچ نہیں کی جاتی۔کئی اداروں میں سفارش اور پیسہ چلتا ہے۔ نتیجتاً ایسے لوگ بھی تعلیمی اداروں میں پہنچ جاتے ہیں جو خود نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایک مرکزی ٹیچرز اسکریننگ بورڈ قائم کرے جو ہر استاد کی کردار، ذہنی اور اخلاقی جانچ کرے۔اسی طرح ہر اسکول، کالج، مدرسے اوریونیورسٹی میں CCTV کیمرے نصب کیے جائیں اور ان کی مانیٹرنگ خود ضلعی انتظامیہ کے ماتحت ہو۔والدین کی ذمہ داری
یہ معاملہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ والدین کا بھی فرض ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں سے روزانہ محبت اور اعتماد کے ساتھ بات کریں، ان کی اسکول یا مدرسے کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھیں، اور اگر بچے کسی استاد یا سٹاف کے رویے سے خوف زدہ ہوں تو فوری ایکشن لیں۔زیادتی کے شکار بچوں کی خاموشی ہی ظالموں کی طاقت بنتی ہے۔اسلام میں بچوں پر ظلم اور زیادتی سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور جو کسی ایک جان کو ناحق قتل کرے، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔” (المائدہ: 32)
نبی کریم ﷺ نے بچوں سے محبت، نرمی اور شفقت کا حکم دیا۔
ایک حدیث میں ہے: “جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں۔” (ترمذی)
ایسے میں جو شخص استاد کے مقدس مقام کو داغ دار کر کے ظلم کرے، وہ نہ صرف قانوناً مجرم بلکہ شرعاً ملعون ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک نے اساتذہ کے رویے، بھرتی اور طلبہ کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں:
- برطانیہ میں “Disclosure and Barring Service (DBS)” ہر استاد کا مجرمانہ ریکارڈ چیک کرتا ہے۔
- امریکہ میں “Child Protection Policy” کے تحت استاد کی طرف سے کسی بھی جسمانی یا ذہنی تشدد پر فوری گرفتاری لازم ہے۔
- سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اسکولوں میں بچوں پر ہاتھ اٹھانا یا ڈانٹنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔
- ترکی میں ہر تعلیمی ادارے میں “Child Safety Officer” تعینات کیا جاتا ہے جو بچوں کے تحفظ پر نظر رکھتا ہے۔
پاکستان میں بھی اسی طرز پر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ استاد کے مقدس پیشے میں چھپے بھیڑیوں کو انجام تک پہنچایا جا سکے۔سماجی آگاہی کی ضرورت یہ معاملہ صرف قانون سے حل نہیں ہوگا۔ہمیں بطور معاشرہ اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔میڈیا، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما اور تعلیمی ادارے ایک ملی سطح کی آگاہی مہم شروع کریں۔
ہر والدین، استاد اور طالب علم کو اس بات کا شعور دیا جائے کہ “تشدد یا ہراسگی کو برداشت نہ کریں، فوراً رپورٹ کریں۔”استاد کا احترام اپنی جگہ لیکن ظلم کو برداشت کرنا ایمان کے خلاف ہے۔استاد کے روپ میں چھپے جلادوں کو نہ قانون، نہ مذہب اور نہ معاشرہ برداشت کر سکتا ہے۔حکومتِ پاکستان، وزارتِ تعلیم، اور مذہبی اداروں کو مشترکہ طور پر ایک ایسا نظام وضع کرنا ہوگا جس میں استاد کا تقدس بھی محفوظ رہے اور بچے بھی محفوظ رہیں۔اگر ہم نے ابھی اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں علم سے نہیں بلکہ خوف سے جینا سیکھیں گی۔
اور وہ دن قوموں کے زوال کی آخری علامت ہوتا ہے۔
