جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی تبدیلی صحت عامہ کے لئے چھپا ہوا بحران
تحریر ڈاکٹر عاصمہ فاطمہ مخدوم
جنوبی ایشیا ماحولیاتی تبدیلی کے کئی محاذوں پر ایک بڑے چیلنج سے گزر رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، جان لیوا سیلاب اور طویل ہیٹ ویوز نے خطے کو گھیر رکھا ہے، مگر اصل خطرہ یہ ہے کہ یہ ماحولیاتی آفات صحت عامہ کے لئے ایک چھپا ہوا بحران بن رہی ہیں۔
پاکستان میں آنے والے 2022 کے تباہ کن سیلابوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا اور کھڑے پانی نے ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کو پھیلنے کا موقع دیا۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں ریکارڈ گرمی کی لہروں نے خاص طور پر بزرگوں، مزدوروں اور بچوں کی زندگیاں چھین لیں۔ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے صحت کے جھٹکے خطے کی کروڑوں آبادی کو خطرے میں ڈال دیں گے۔
ان خطرات کے باوجود جدید ٹیکنالوجی امید کی کرن بنی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش نے موبائل پر مبنی ہیٹ الرٹ سسٹم کا کامیاب تجربہ کیا ہے تاکہ عوام کو شدید گرمی کی لہروں سے پہلے خبردار کیا جا سکے۔ پاکستان اور نیپال کے دیہی علاقوں میں شمسی توانائی سے چلنے والے کلینکس بجلی کی بندش کے دوران ویکسین کو محفوظ رکھ کر طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح ڈجیٹل ٹولز ڈینگی کی وبا کے پھیلاؤ کی درست پیشگوئی کر کے انتظامیہ کو بروقت اقدامات کی سہولت دے رہے ہیں۔
لیکن صرف جدت ہی کافی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی مزاحم صحت کے نظام پر جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ پالیسی ساز اب بھی ماحولیاتی تبدیلی کو صرف ماحولیاتی مسئلہ سمجھتے ہیں، صحت کا بحران نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف شعبوں میں مربوط حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ “ہیلتھ ان آل پالیسیز” حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے، کیونکہ صاف ستھری شہری ٹرانسپورٹ نہ صرف ماحول کے لئے بہتر ہے بلکہ سانس کی بیماریوں کو کم کر کے انسانی جانیں بھی بچاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق آگے بڑھنے کے لئے تین اقدامات فوری طور پر ضروری ہیں۔ سب سے پہلے صحت کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا، جن میں سیلاب سے محفوظ اسپتال، ہیٹ ویو ریفیوج اور شمسی توانائی سے چلنے والے کلینکس شامل ہوں۔ دوسرا، خطے کی سطح پر تعاون بڑھانا ہوگا تاکہ ایک مشترکہ کلائمیٹ-ہیلتھ ٹاسک فورس معلومات اور ابتدائی انتباہات کا تبادلہ کرے۔ تیسرا، عوامی سطح پر آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ ہیٹ اسٹروک اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
جنوبی ایشیا کا مستقبل اسی بات پر منحصر ہے کہ پالیسی اور اختراع کو کس طرح یکجا کیا جاتا ہے۔ اگر آج فیصلہ کن اقدامات کیے گئے تو بحران کو ایک موقع میں بدلا جا سکتا ہے اور صحت مند و مضبوط معاشروں کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ بصورت دیگر آنے والی ماحولیاتی آفات ایک بڑے انسانی المیے میں بدل سکتی ہیں۔
