ہم صرف بحران نہیں، مستقبل بچا رہے ہیں — ڈاکٹر عاصم اعجاز کا SMA کے ہنگامی علاج میں تربیت کی ضرورت پر زور

newsdesk
6 Min Read
برطانیہ کے ایمرجنسی ماہر نے اسپائنل مسکلر اٹروفی مریضوں کے ایمرجنسی انتظام، سانس کی حفاظت اور خاندانی کردار کے فوری اصول بیان کیے۔

اسلام آباد — برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کنسلٹنٹ ایمرجنسی میڈیسن اور رائل کالج آف ایمرجنسی میڈیسن (RCEM) کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹر عاصم اعجاز نے اسپائنل مسکیولر ایٹروفی (SMA) پر مبنی Strive Foundation کی قومی کانفرنس میں ایک نہایت اہم اور سائنسی گفتگو کی۔ ان کا خصوصی  “Acute Assessment and Management of Patients with Spinal Muscular Atrophy (SMA) in the Emergency Department”  جس میں انہوں نے پاکستان کے ایمرجنسی معالجین کو SMA مریضوں کے ہنگامی علاج کے لیے خصوصی تربیت کی ضرورت پر زور دیا۔

ڈاکٹر عاصم اعجاز نے کہا کہ اگرچہ وہ SMA کے ماہر نہیں، لیکن انہیں ہنگامی صورتحال میں ان مریضوں کے علاج کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں بیشتر ایمرجنسی ڈاکٹرز SMA کے کیسز کے حوالے سے مناسب تربیت نہیں رکھتے، جس کے باعث بحران کے دوران غلط فیصلے اور اموات تک کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ SMA مریض جسمانی طور پر نہایت کمزور ہوتے ہیں، اس لیے ان کے علاج میں ہر قدم انتہائی احتیاط سے اٹھانا ضروری ہے۔

ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ SMA کے مریضوں کی جسمانی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے “ایک گلاس جو پہلے ہی نوّے فیصد بھرا ہوا ہو”، یعنی معمولی سا زکام یا پانی کی کمی بھی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مریضوں میں سانس کی ناکامی سب سے بڑی اور مہلک پیچیدگی ہے، جو بچوں میں 80 سے 90 فیصد اموات کی بنیادی وجہ بنتی ہے۔

انہوں نے ایمرجنسی معالجین کو خبردار کیا کہ SMA مریضوں کا صرف آکسیجن سیچوریشن لیول دیکھ کر اندازہ لگانا خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ اعداد و شمار اکثر دھوکہ دہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک کیس کی مثال دی جس میں بچے کا آکسیجن لیول 95 فیصد تھا، لیکن سانس لینے کے انداز میں خطرناک تبدیلی (paradoxical breathing) کو نظر انداز کیا گیا جس سے حالت بگڑ گئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کو محض مشینی اعداد کے بجائے مریض کی مجموعی حالت اور کلینیکل علامات پر انحصار کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ مریضوں کے والدین اور دیکھ بھال کرنے والے افراد “سب سے قیمتی تشخیصی ذریعہ” ہیں۔ ان کے مطابق والدین اپنے بچے کی عمومی حالت سے واقف ہوتے ہیں اور معمولی تبدیلی کو فوراً محسوس کر لیتے ہیں، اس لیے ان کی بات کو سننا اور سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔

انہوں نے عام مگر خطرناک غلطیوں کی نشاندہی بھی کی جو اکثر ایمرجنسی میں کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ سیڈیٹیوز (Sedatives) اور سانس دبانے والی ادویات SMA مریضوں کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔ انہوں نے ایک کیس بیان کیا جس میں ایک آٹھ سالہ بچے کو بے چینی کے باعث دوا دی گئی، جس کے نتیجے میں سانس بند ہو گیا اور دماغ کو آکسیجن کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے تمام ایسی ادویات سے پرہیز کا مشورہ دیا جو سانس پر اثر ڈالتی ہیں، بشمول عام کھانسی کے شربت، اور کہا کہ مریضوں کو پرسکون کرنے کے لیے غیر ادویاتی طریقے اختیار کیے جائیں۔

اسپائنل مسکولر اٹروفی - اسپائنل مسکولر اٹروفی کے فوری علاج کا حکمتِ عمل

انہوں نے Fluid Overload کے خطرے پر بھی زور دیا، بتاتے ہوئے کہ SMA مریضوں میں پٹھوں کی کمی کے باعث جسم کا “ڈرائی ویٹ” ظاہری وزن سے کہیں کم ہوتا ہے۔ اگر ان کے وزن کے مطابق نارمل فلوئڈ دیا جائے تو یہ پھیپھڑوں پر دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ “ایسا ہے جیسے ایک چھوٹے گملے میں زیادہ پانی ڈال دیا جائے۔” ان کے مطابق مریض کو کم مقدار (مثلاً 5 ملی لیٹر فی کلوگرام) میں فلوئڈ دینا چاہیے اور ہر بار دینے کے بعد دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔

ڈاکٹر عاصم نے علاج کے لیے ایک منظم طریقہ کار “SMART” فریم ورک متعارف کرایا، جس میں پانچ نکات شامل ہیں:
Support (سانس اور سیکریشن کا خیال رکھنا)، Metabolic/Hydration (جسم میں پانی اور نمکیات کا توازن برقرار رکھنا)، Airway (ایئر وے کا تحفظ اور aspiration سے بچاؤ)، Review (مریض کی بنیادی حالت کا جائزہ اور مدد حاصل کرنا)، اور Trigger (مسئلے کی جڑ جیسے زکام، چوٹ یا پانی کی کمی کی شناخت کرنا)۔

پاکستان میں ایمرجنسی میڈیسن کی کمزور تربیت قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث — ڈاکٹر عاصم اعجاز

پاکستان کے صحت کے نظام میں بہتری کے لیے انہوں نے ایک عملی تجویز بھی پیش کی — “SMA Alert Card”۔ انہوں نے کہا کہ ایک سادہ ایک صفحے کا کارڈ مریضوں یا ان کے والدین کے پاس ہونا چاہیے، جس میں تشخیص، معمول کی حالت اور ہنگامی صورتحال میں “کیا کریں اور کیا نہ کریں” کی واضح ہدایات درج ہوں۔ ان کے مطابق اس کارڈ سے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں کے ڈاکٹروں کو بھی فوری رہنمائی مل سکے گی اور قیمتی جانیں بچائی جا سکیں گی۔

اپنے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر عاصم اعجاز نے کہا کہ مریضوں کے خاندانوں، ڈاکٹروں اور اداروں جیسے Strive Foundation کے درمیان اشتراک ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم صرف ایک بحران کا علاج نہیں کر رہے، ہم ایک مستقبل کی حفاظت کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں وہ معالج بننا ہے جو اس فرق کو سمجھتا ہو۔”

Share This Article
1 تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے