سینیٹ کمیٹی نے نیشنل یونیورسٹی کے مسائل حل کرنے کی سفارش

newsdesk
5 Min Read
سینیٹ کمیٹی نے نیشنل یونیورسٹی کے طلبہ، بلوچستان وظائف، گرلز ہاسٹلز اور سیوریج کے مسائل حل کرنے کی سفارشات جاری کیں۔

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے انتظامی اور تعلیمی مسائل پر تفصیلی غور کیا گیا اور کئی سفارشات دی گئیں۔ اجلاس کی صدارت سینیٹر کامل علی آغا نے کی جبکہ دیگر اراکین میں ڈاکٹر افنان اللہ خان، ندیم احمد بھٹو، حسنہ بانو اور محمد اسلم ابڑو شامل تھے۔ڈاکٹر محمد زاہد لطیف نے ریکٹر کی حیثیت سے یونیورسٹی کی کارکردگی اور درپیش مشکلات سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کو سنہئے اکساسی میں قائم کیا گیا تھی اور اس وقت یہاں ایک سو اٹھہتر ڈگری پروگرام سات شعبہ جات میں پیش کیے جا رہے ہیں، طلبہ کی تعداد بیس ہزار ہے اور فیکلٹی کی تعداد ایک ہزار دو سو ننانوے ہے جن میں اڑسٹھ فیصد پی ایچ ڈی ہیں، سینتالیس فیصد بیرونِ ملک تعلیم یافتہ اور انتیس فیصد خواتین رکنِ عملہ ہیں۔عالمی درجہ بندی 2025-2026 کے مطابق یونیورسٹی کو جنوبی ایشیا میں چھٹا، ایشیا میں ستّرہ اور عالمی درجہ بندی میں تین سو اکہتر مقام دیا گیا۔ بورڈ آف گورنرز کو یونیورسٹی کے امور کی اعلیٰ نگرانی کی حثیت قرار دیا گیا۔کمیٹی کو دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2017 کی مردم شماری پر مبنی طلبہ کی صوبائی تقسیم میں پنجاب کا حصہ نمایاں تھا جس پر اراکین نے تشویش کا اظہار کیا۔ اعداد کے مطابق طلبہ میں پنجاب کا تناسب 61.02 فیصد، خیبر پختونخوا 11.56 فیصد، اسلام آباد 9.69 فیصد، سندھ 8.38 فیصد، آزاد جموں و کشمیر 3.1 فیصد، بلوچستان 2.59 فیصد، گلگت بلتستان 2.24 فیصد اور بین الاقوامی طلبہ 0.38 فیصد ہیں۔ریکٹر نے واضح کیا کہ داخلے سخت میرٹ کے تحت ہوتے ہیں اور مختلف صوبوں کے تعلیمی معیار میں فرق بعض امیدواروں کو داخلہ کے لیے درکار داخلہ ٹیسٹ پاس کرنے سے روکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ملک گیر داخلہ ٹیسٹ کراتی ہے تاکہ طلبہ کو مزید سہولت ملے اور ایک ہزار سے زائد وظائف ایسے مستحق طلبہ کو دیے جاتے ہیں جن کی خاندانی آمدنی چالیس ہزار روپے ماہانہ سے کم ہو۔کمیٹی نے بلوچستان کے طلبہ کے لیے سہولتیں بڑھانے پر زور دیا۔ ریکٹر نے بتایا کہ نیشنل یونیورسٹی بلوچستان کیمپس کو مالی طور پر شدید خسارہ ہے اور سالانہ تین کروڑ روپے کے قریب خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے جبکہ حکومتِ بلوچستان کی جانب سے سابق عہدہ پر دو سو طلبہ کے وظائف ابھی تک ادا نہیں کیے گئے۔ اس پر چیئرمین نے ہدایت کی کہ چیف سیکرٹری بلوچستان اور بلوچستان ایجوکیشن اینڈومنٹ فنڈ کے سربراہ کو آئندہ اجلاس میں طلب کیا جائے تاکہ بقایا جات اور وظائف کا معاملہ حل ہوسکے۔ اسی کے ساتھ یونیورسٹی کو ہدایت دی گئی کہ وہ کم مراعات یافتہ صوبوں کے طلبہ کے لیے تیاری کلاسز کا انتظام کرے تاکہ وہ داخلہ کے قابل بن سکیں۔کمیٹی نے لڑکیوں کے ہاسٹلز کی کمی کا بھی نوٹس لیا اور ہدایت کی کہ نیشنل یونیورسٹی برائے شاملِ منصوبہ جات مناسب وقت پر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں گرلز ہاسٹلز کے لیے پروپوزل جمع کروائے۔ ریکٹر نے مالی بحران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی سالانہ الاٹمنٹ چار ارب روپے ہے جب کہ یونیورسٹی کے سالانہ اخراجات بارہ ارب روپے سے زائد ہوگئے ہیں جن میں ایک ارب روپے سالانہ بجلی کا بل شامل ہے، جس سے اسٹاف کے معاوضوں میں مقابلتی بنیادوں پر کمیابی اور ریٹائر منٹ کے بعد چند سالوں میں فیکلٹی کی ٹرن اوور میں اضافہ ہوا ہے۔یونیورسٹی کے احاطے سے باہر کے علاقوں کی سیوریج کا پانی گزرنے کے مسئلے پر کمیٹی نے سخت نوٹس لیا اور مطالبہ کیا کہ یہ سلسلہ فوری طور پر روکا جائے۔ اس بارے میں نیشنل یونیورسٹی اور کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے درمیان پانی کی فراہمی، زمین کے لیز اور استعمال، اور تعمیراتی این او سیز سے متعلق امور کے حل کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کمیٹی نے فوری اقدامات اور آئندہ اجلاس میں متعلقہ حکام کی حاضری کے ذریعے مسائل کے حل کی ہدایت جاری کی۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے