انٹر پارلیمنٹری یونین کی ایک سو اکیاون اسمبلی کے دوران جنیوا میں منعقدہ فورم آف وومن پارلیمنیرینز میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہوئی سینیٹر سمینہ زہری نے پارلیمانی خواتین اور عالمی قوانین سازوں کے سامنے قیادت کے نئے معانی واضح کئے۔ سینیٹر سمینہ زہری نے اپنے خطاب میں بتایا کہ قیادت کو محض اقتدار اور مراعات سے نہیں ناپا جانا چاہئے بلکہ اسے خدمت اور مقصد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں غلبے سے کرامت کی جانب جانا ہوگا اور قانون سازی، پارلیمانی نگرانی اور شعور بیداری کے ذریعے صنفی مساوات کے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ سینیٹر سمینہ زہری نے زور دیا کہ ہر لیڈر کا فرض ہے کہ وہ اپنے حلقۂ اقتدار میں توازن اور احترام پیدا کرے تاکہ معاشرتی محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔اپنے خطاب میں سینیٹر سمینہ زہری نے پاکستان، سینیٹ اور اپنے صوبۂ بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان کی خواتین کی جدوجہد حوصلہ اور استقامت کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بلوچستان کی خاتون کسی کمیٹی کی سربراہی کرتی ہے، اصلاحی مسودہ تیار کرتی ہے یا عدل کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو وہ نہ صرف رکاوٹ دور کرتی ہے بلکہ تاریخ رقم کرتی ہے۔سینیٹر سمینہ زہری نے انسانی حقوق سے متعلق ان اہم قوانین کا بھی حوالہ دیا جن میں ذہنی صحت سے متعلق اصلاحات، صنفی طور پر مبنی تشدد کے خلاف مضبوط قوانین اور آن لائن تحفظ کے جامع اقدامات شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدل کا مقصد صرف سزا دینا نہیں بلکہ انسانیت اور ہمدردی کو برقرار رکھنا بھی ہے۔انہوں نے دو ہزار بائیس کے بلوچستان کے سیلاب کے دوران اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ حقیقی قیادت اقتدار کا مظہر نہیں بلکہ خدمت کا عکاس ہوتی ہے اور جب یہ خدمت ہمدردی سے سر انجام پائے تو وہ سب سے مضبوط قوت بنتی ہے۔ سینیٹر سمینہ زہری نے بین نظریاتی تعاون، عوامی شعور اور اداری اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مخالفت کو طاقت میں تبدیل کر کے عزت و وقار کے لئے اجتماعی آواز بلند کی گئی ہے۔جنیوا میں اپنے خطاب کے آخر میں سینیٹر سمینہ زہری نے عالمی خواتین رہنماؤں سے اپیل کی کہ اقتدار کے ذریعے نہیں بلکہ مقصد کے ذریعے قیادت کریں، مراعات کے ساتھ نہیں بلکہ ہمدردی کے ساتھ آگے بڑھیں اور ایسا معاشرہ بنائیں جہاں تقدیر صنف کی بجائے ہمت اور ہدف سے طے ہو۔
