جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات — قانون تو ہے، انصاف نہیں
تحریر: اقرا لیاقت
پنجاب، جو پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، حالیہ برسوں میں خواتین، بچیوں اور کمزور طبقات کے خلاف جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے لرز اٹھا ہے۔ ہر نیا واقعہ پرانے زخموں کو تازہ کرتا ہے اور یہ تلخ حقیقت اجاگر کرتا ہے کہ قانون تو موجود ہے، مگر انصاف کہیں کھو گیا ہے۔ لاہور سے قصور، فیصل آباد سے شیخوپورہ تک، اعداد و شمار سے زیادہ دل دہلا دینے والی چیز وہ خاموشی ہے — متاثرہ خواتین کی خاموشی، جنہیں معاشرہ سہارا دینے کے بجائے شرمندہ کرتا ہے۔ اسی خاموشی میں انصاف دم توڑ دیتا ہے۔
⚖️ قانون تو موجود ہے، مگر عملدرآمد کہاں؟
گزشتہ چند برسوں میں پنجاب حکومت نے خواتین اور بچوں کو تشدد سے بچانے کے لیے کئی قوانین متعارف کرائے۔
پنجاب ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2016 نے گھریلو اور جنسی تشدد کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کیا۔ ویمن پروٹیکشن سینٹرز، ہیلپ لائن 1043، اور الیکٹرانک مانیٹرنگ جیسے اقدامات متاثرہ خواتین کے لیے امید کی ایک کرن ہیں۔
اسی طرح، پنجاب چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2015 نے بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات کے لیے سخت قانونی فریم ورک تشکیل دیا، جبکہ اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کے تحت خصوصی عدالتیں، خواتین پولیس افسران، اور ڈی این اے ٹیسٹ کو ثبوت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
تاہم ان تمام قوانین کے باوجود، پنجاب کی گلیاں، تھانے اور عدالتیں آج بھی انصاف کی پکار سے گونج رہی ہیں — مگر کوئی سننے والا نہیں۔
🚨 نظامی ناکامیاں
ناکافی پولیس تحقیقات، عدالتی تاخیر، اور سماجی بدنامی — یہ تین زنجیریں ہیں جو انصاف کو قید رکھتی ہیں۔
اکثر کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ میں تاخیر ہوتی ہے، میڈیکل رپورٹس نامکمل رہتی ہیں، اور متاثرہ خاندانوں پر “صلح” کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
ہر نیا واقعہ انصاف کی ایک اور خاموش شکست بن جاتا ہے۔
سب سے زیادہ قابلِ افسوس حالت خواجہ سرا برادری کی ہے — جن کے کیسز اکثر سرکاری ریکارڈ تک میں شامل نہیں کیے جاتے۔ قانون ان کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے، مگر معاشرہ اب بھی ان کے درد سے آنکھیں چرا لیتا ہے۔
💡 آگے کا راستہ
پنجاب کو نئے قوانین کی نہیں، بلکہ موجودہ قوانین کے مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے۔
پولیس کو جنسی جرائم کی جدید تحقیقات پر تربیت دی جائے۔
ہر ضلع میں شیلٹر ہومز اور مفت قانونی امداد کے مراکز قائم کیے جائیں۔
خصوصی عدالتوں کو پابند کیا جائے کہ ریپ کیسز 90 دنوں کے اندر مکمل کیے جائیں۔
اسکولوں، میڈیا، اور کمیونٹی سطح پر آگاہی مہمات کے ذریعے شرمندگی اور الزام تراشی کے کلچر کو ختم کیا جائے۔
اور سب سے بڑھ کر، معاشرتی ذہنیت بدلنی ہوگی — کیونکہ قانون سزا دے سکتا ہے، مگر صرف ہمدردی ہی شفا دے سکتی ہے۔
✍️ نتیجہ
پنجاب کا بحران قانون کی کمی نہیں، ہمدردی اور عملدرآمد کی کمی ہے۔
انصاف کتابوں میں لکھا ہے، مگر عدالتوں سے باہر اس کی آوازیں خاموشی میں گم ہو جاتی ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہر ادارہ، ہر رہنما، اور ہر شہری ایک آواز بلند کرے:
“جنسی تشدد پر خاموشی جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے —
انصاف خیرات نہیں، ہر شہری کا حق ہے۔”
