بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی میزبانی میں ویانا میں اس ہفتے طبی تابکاری حفاظت کے حوالے سے ایک بڑا عالمی اجلاس جاری ہے جہاں دنیا بھر کے طبی اور حفاظتی ماہرین یکجا ہو رہے ہیں۔اس اجلاس میں چھ سو پچاس سے زائد ماہرین شرکت کر رہے ہیں اور نمائندے ایک سو بیس سے زائد ممالک سے شامل ہیں جو ’’بون کال فار ایکشن‘‘ کے بعد کی پیشرفت کا جائزہ لے کر مستقبل کی حکمت عملی طے کر رہے ہیں۔ حاضرین کا مقصد طبی امیجنگ اور تھراپی میں حفاظت کو مزید مستحکم کرنا ہے تاکہ مریضوں اور طبی عملے دونوں کے لیے تابکاری حفاظت کو بہتر بنایا جا سکے۔نئی امیجنگ ٹیکنالوجیاں، تابکار ادویات، ڈیجیٹل نظام اور مصنوعی ذہانت طبی عمل میں تبدیلیاں لا رہے ہیں جن سے فوائد کے ساتھ ساتھ نمائش کے انداز اور حفاظتی چیلنجز بھی بدل رہے ہیں۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں ریگولیٹرز اور طبی ٹیموں کے لیے تابکاری حفاظت کے معیارات کو اپ ڈیٹ کرنا ناگزیر ہے تاکہ جدید ٹیکنالوجی محفوظ انداز میں استعمال ہو سکے۔رافائل ماریانو گروسی نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ نئی ٹیکنالوجیز بڑے فوائد دیتی ہیں مگر ان کے ساتھ نمائش کے نئے پیٹرن اور ریگولیٹری چیلنجز بھی آتے ہیں، اس لیے ہمیں رفتار کے ساتھ حفاظتی معیارات کو بھی آگے بڑھانا ہوگاانہوں نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی مہم ‘‘امید کی شعاعیں‘‘ جدید سہولیات تک رسائی بڑھانے اور صلاحیت کو مضبوط کرنے میں مدد دے رہی ہے۔ اس کوشش میں عالمی ادارۂ صحت اور پان امریکن صحت تنظیم کے ساتھ شراکت سے ایک مشترکہ وژن تیار کیا جا رہا ہے جس کا مقصد طب میں تابکاری حفاظت کو عالمی سطح پر یکساں اور موثر بنانا ہے۔اجلاس میں ماہرین کی گفتگو کا محور یہی رہا کہ تابکاری حفاظت کے مؤثر نفاذ کے لیے تربیت، مناسب ضوابط اور ٹیکنالوجی کے محفوظ استعمال کو یکجا کیا جائے۔ ایسے عالمی فورمز پاکستان سمیت دیگر ممالک کو اپنی طبی پریکٹس میں حفاظتی معیارات اپنانے میں رہنمائی فراہم کریں گے اور تابکاری حفاظت کے شعبے میں عالمی ہم آہنگی کو فروغ دیں گے۔
