پنجاب اسمبلی کے آٹھ اراکین نے تین روزہ مشاہداتی دورہ شروع کیا جس کا مقصد سندھ کے نفاذِ قانون سے براہِ راست تجربہ حاصل کر کے پنجاب میں بچپن کی شادی کے خلاف قانون سازی کو تیز کرنا ہے۔ یہ دورہ اقوامِ متحدہ کے ایک آبادیاتی ادارے کی حمایت اور برطانوی امداد کی معاونت سے ممکن بنایا گیا ہے تاکہ قانون سازی کے عمل میں ٹھوس دلائل اور عملی مثالیں پیش کی جا سکیں۔دورے کے پہلے روز وفد نے کوہی گوٹھ فِسٹولا سینٹر کا معائنہ کیا جہاں انہیں بچپن کی شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سنگین طبی مسائل کا براہِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وفد نے فِسٹولا کے مریضوں سے ملاقات کی اور اس تکلیف دہ زخم کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی جو اکثر کم عمر دُلہنوں کی زچگی کے دوران پیدا ہوتا ہے۔ اس موقع پر بچوں کی صحت اور خواتین کے حقوق کے تناظر میں بچپن کی شادی کے مضر نتائج واضح نظر آئے۔وفد نے وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بھی ملاقات کی جنہوں نے سندھ میں سنہ 2013 کے نافذ شدہ قانون اور متعلقہ ادارہ جاتی اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی۔ ملاقات میں سندھ کے تجربات، صوبائی قوانین کے اطلاق کے طریقہ کار اور کمیونٹی لیول پر رہاِتی توجہ کے باعث حاصل ہونے والے نتائج پر تبادلۂ خیال ہوا، جسے وفد نے پنجاب کے سیاق و سباق میں مفید قرار دیا۔دورے کے شرکاء نے کہا کہ سندھ کا عملی تجربہ پنجاب میں بچپن کی شادی کے خلاف قوانین کی منظوری کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہو سکتا ہے اور وہ اس دورے سے حاصل شدہ مشاہدات کو پنجاب اسمبلی میں پیش کر کے متعلقہ بل کی منظوری کے عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ وفد کے مطابق بل کی منظوری کے بعد نفاذ اور بیداری مہم دونوں پہلوؤں پر توجہ دی جائے گی تاکہ بچپن کی شادی کے رجحان کو موثر انداز میں روکا جا سکے۔
