قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے پی ٹی وی کے ایک اینکر کی جانب سے مخصوص قومیت کے خلاف توہین آمیز کلمات کے واقعے پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے اس معاملے کی مکمل تحقیقات، متعلقہ اینکر کی بلیک لسٹنگ اور ادارہ جاتی ضابطہ اخلاق کے نفاذ پر زور دیا۔ اجلاس میں چیئرمین اور دیگر اراکین نے قومی اداروں کی ساکھ اور عوامی اعتماد کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیا۔
اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کی صدارت چیئرمین پولین بلوچ نے کی۔ اجلاس کا مرکز پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کی گئی توہین آمیز ریمارکس تھی جس پر تمام اراکین نے یک زبان ہو کر مذمت کی، مگر کرن عمران ڈار نے اس بحث میں سب سے زیادہ مؤثر اور نمایاں آواز بن کر اجلاسی گفتگو کی سمت متعین کی۔
کرن عمران ڈار نے کہا کہ یہ واقعہ محض ایک انفرادی لغزش نہیں بلکہ قومی ادارے کے بنیادیکردار پر سوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ "پی ٹی وی عوام کا ادارہ ہے، یہ پاکستان کے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چلتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کو اگر نفرت اور تقسیم کے لیے استعمال کیا گیا تو پھر عوام کے اعتماد کا جنازہ نکل جائے گا۔” انہوں نے موقف اختیار کیا کہ صرف کنٹریکٹ منسوخ کرنا کافی نہیں بلکہ واضح اور مؤثر مثال قائم کرنا ضروری ہے تاکہ آئندہ کوئی فرد دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی جسارت نہ کرے۔
اجلاس میں کرن عمران ڈار کی تجویز پر ضابطہ اخلاق کے قیام کی سفارش کو تمام ارکان نے سراہا اور متفقہ طور پر ضابطہ اخلاق تیار کرنے کی منظوری دی۔ ان کے بقول اینکرز اور پروگرام میزبان محض ذاتی رائے نہیں دے رہے ہوتے بلکہ قومی بیانیہ تشکیل دے رہے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے سخت ضابطہ اخلاق لاگو کرنا ناگزیر ہے۔
سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ متعلقہ اینکر کا کنٹریکٹ معطل کر کے بعد ازاں ختم کر دیا گیا ہے، مگر کرن عمران ڈار نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قدم واحد حل نہیں۔ کمیٹی نے کرن عمران ڈار کی تجویز کے تحت سفارش کی کہ متعلقہ اینکر کو تمام ریاستی میڈیا پلیٹ فارمز پر بلیک لسٹ کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس جیسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو۔
اجلاس کے دوران دیگر اراکین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا؛ ندیم عباس نے کہا کہ قومی اداروں کی ساکھ پر سمجھوتہ ناقابل قبول ہے، آسیہ ناز تنولی نے عوامی جذبات کی توہین کو ناقابلِ برداشت قرار دیا، سحر کامران نے فوری اور سخت کارروائی پر زور دیا اور امین الحق نے کہا کہ قومی میڈیا کو اتحاد و محبت کا ذریعہ بننا چاہیے۔ ان تمام آراء کا مرکزی نکتہ یہی رہا کہ نفرت انگیز گفتگو کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے۔
ڈیجیٹل کمیشن (ڈی سی ڈی) کے حوالے سے بریفنگ کے دوران بھی کرن عمران ڈار نے کہا کہ ڈیجیٹل خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی ضروری ہے مگر سب سے بڑی ضرورت ادارہ جاتی شفافیت اور جوابدہی ہے۔ ان کے بقول جب ادارے اپنی پالیسیوں اور طریقہ کار میں شفاف ہوں گے تو کسی اینکر یا پروپیگنڈا کا اثر دیرپا نہیں رہ سکے گا اور عوام کا اعتماد برقرار رہے گا۔
اجلاس کے اختتام پر کمیٹی نے کرن عمران ڈار کی تجویز کردہ سخت مؤقف اور عملی سفارشات کے مطابق بلیک لسٹنگ اور ضابطہ اخلاق کی تیاری کے لیے سفارشات مرتب کیں، جس سے واضح ہوا کہ ایک نمایاں رکن کی آواز اجلاس کی سمت طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
