سیاسی بغاوتیں ہمارے دور کا المیہ

newsdesk
7 Min Read
سیاسی بغاوتیں عوامی اعتماد کو مجروح کر چکی ہیں، آئینی اصلاحات، اندرونی جماعتی جمہوریت اور شفافیت کے ذریعے اس زہریلے عمل کا خاتمہ ضروری ہے۔

سیاست میں وفاداریوں کی تبدیلی موجودہ دور کا المیہ
تحریر: ظہیر احمد اعوان
دنیا بھر میں قدیم زمانوں سے لے کر آج کے جدید دور تک وفاداریوں کی تبدیلی کو انتہائی قبیح، غیر اخلاقی اور اعتماد شکن عمل سمجھا جاتا ہے۔ وفاداری کا مطلب ہے اصول، نظریہ، اور عہد پر قائم رہنا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست میں وفاداری کو ایک تجارت بنا دیا گیا ہے۔ سیاسی وابستگیاں ضمیر یا نظریے سے نہیں بلکہ عہدوں، وزارتوں اور ذاتی مفاد سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست پر عوام کا اعتماد کمزور پڑتا جا رہا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، یہاں وفاداریاں بدلنا ایک معمول کی بات سمجھی جانے لگی ہے۔ چند بااصول اور نظریاتی سیاستدانوں کو چھوڑ کر اکثریت نے وقتاً فوقتاً ذاتی مفاد، مالی فائدے، یا اقتدار کے لالچ میں اپنی جماعتیں بدلی ہیں۔ کبھی حکومت بنانے کے لیے تو کبھی اسے گرانے کے لیے اراکینِ اسمبلی کا خرید و فروخت کیا جانا ہمارے جمہوری نظام پر ایک بدنما داغ ہے۔یہ المیہ صرف آج کا نہیں، بلکہ ہماری سیاسی تاریخ کا مستقل حصہ رہا ہے۔ 1950 کی دہائی میں سیاسی جوڑ توڑ نے پہلی اسمبلیوں کو توڑا، 1980 اور 1990 کی دہائی میں حکومتیں وفاداریوں کی تبدیلی سے گرائی گئیں، اور آج بھی منظر نامہ وہی ہے بس کردار بدل گئے ہیں۔
نوجوان نسل اب اس پرانے سیاسی نظام سے بیزار دکھائی دیتی ہے۔ ان کی بیزاری کی بنیادی وجہ یہی خرید و فروخت اور موقع پرستی ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی نظریہ، کوئی اصول اور کوئی امانت داری باقی نہیں رہی تو ان کا سیاست سے یقین اٹھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نوجوان طبقہ سیاست سے دور اور مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ہر سطح پر، چاہے وہ قومی اسمبلی ہو، صوبائی اسمبلی، سینٹ، صدارت، آزاد کشمیر یا بلدیاتی انتخابات — وفاداریوں کی تبدیلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم بھی اکثر مالی مفادات پر مبنی ہوتی ہے۔ جو شخص پارٹی ٹکٹ خرید کر اسمبلی میں پہنچتا ہے، وہ عوام کی خدمت نہیں بلکہ اپنے پیسے پورے کرنے کے لیے قانون سازی یا ٹھیکوں کے ذریعے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہی نظام بدعنوانی کو بڑھا رہا ہے۔اس المیے کی جڑیں پاکستان کے جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور خاندانی سیاسی ڈھانچے میں پیوست ہیں۔ یہاں سیاست کو خدمت نہیں بلکہ کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہ ہونے کے باعث چند بااثر خاندان اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں۔ یہی لوگ پارٹی سے پارٹی میں چھلانگ لگاتے ہیں، اور اقتدار کے ساتھ اپنی وفاداریاں بھی بدل لیتے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک نے اس مسئلے کے سدباب کے لیے واضح قانون سازی کی ہے۔

  • بھارت نے 1985 میں "Anti-Defection Law” کے تحت آئین میں دسویں شیڈول (Tenth Schedule) شامل کیا، جس کے تحت کوئی رکنِ اسمبلی اگر اپنی جماعت چھوڑتا ہے یا مخالف پارٹی کی حمایت کرتا ہے تو اس کی رکنیت ختم کر دی جاتی ہے۔ اس قانون نے بھارت میں سیاسی استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔
  • برطانیہ میں پارٹی سے انحراف کو عوامی دھوکہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی رکن اپنی پارٹی کے خلاف جائے تو اس پر اخلاقی دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اسے ازخود استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔
  • آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور کینیڈا** جیسے ممالک میں اگر کوئی منتخب نمائندہ پارٹی بدلنا چاہے تو اسے دوبارہ عوام سے ووٹ لینا پڑتا ہے یعنی By-Election لازمی ہوتا ہے تاکہ عوام فیصلہ کریں کہ وہ اب بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں۔
  • افریقہ کے کئی ممالک مثلاً نائجیریا، کینیا اور جنوبی افریقہ میں بھی “Floor Crossing” کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں تاکہ جمہوریت کو ذاتی تجارت نہ بنایا جا سکے۔
    پاکستان میں بھی آئین کا آرٹیکل 63-A (Defection Clause) اس حوالے سے موجود ہے، جس کے مطابق اگر کوئی رکن اپنی جماعت کے فیصلے کے خلاف ووٹ دے یا پارٹی چھوڑ دے تو اس کی رکنیت ختم کی جا سکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس قانون پر عملدرآمد ہمیشہ سیاسی مفاد کے مطابق ہوتا ہے۔ مختلف ادوار میں اس قانون کو کمزور یا محدود کر کے سیاسی وفاداریوں کی خرید و فروخت کو جاری رکھا گیا۔سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی دراصل جمہوریت کے بنیادی اصول عوامی نمائندگی پر حملہ ہے۔ عوام کسی امیدوار کو ایک نظریے اور منشور کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ اگر وہ نمائندہ بعد میں اپنا نظریہ بدل لے تو یہ ووٹر کے اعتماد سے غداری کے مترادف ہے۔
    اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ پھر سیاست چند سرمایہ دار خاندانوں کی جاگیر بن کر رہ جائے گی، اور عوام کا کردار صرف ووٹ ڈالنے تک محدود ہو جائے گا۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس قبیح عمل کے خلاف اجتماعی آواز بلند کریں۔ اس کے لیے چند عملی اقدامات ناگزیر ہیں:
  1. سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی جمہوریت قائم کی جائے۔
  2. “پارٹی بدلنے” والے اراکین کے لیے فوری نااہلی اور دوبارہ انتخابات لازمی ہوں۔
  3. سیاسی فنڈنگ اور پارٹی ٹکٹوں کے اجراء میں شفافیت لائی جائے۔
  4. عدالتیں اس عمل کو “عوامی دھوکہ دہی” کے زمرے میں لائیں۔
  5. عوام، میڈیا، وکلاء، اساتذہ، طلباء، اور سول سوسائٹی اس کے خلاف بیداری مہم شروع کریں۔
    میں اپنے ملک کے باشعور طبقے، اساتذہ، وکلاء، علمائے کرام، اور صحافی برادری سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ سیاست میں وفاداریوں کی خرید و فروخت کے خلاف ایک قومی تحریک کی صورت میں آواز اٹھائیں۔ یہ صرف سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ قومی اخلاقیات اور عوامی اعتماد کا مسئلہ ہے۔جب تک ہم وفاداری کو ضمیر، نظریے اور خدمت سے نہیں جوڑیں گے، ہماری سیاست ایک کاروبار اور جمہوریت ایک مذاق بنی رہے گی۔
    یہی وقت ہے کہ ہم اس ناسور کا علاج کریں — تاکہ آنے والی نسلیں ایک ایسی سیاست دیکھیں جس میں اصول، شرافت اور عوامی اعتماد زندہ ہو۔
Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے