اسلام آباد (ندیم تنولی) پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے کالج آف نرسنگ میں بی ایس نرسنگ (جنرل) پروگرام کے لیے اعلان کردہ صنفی کوٹہ نے قانونی اور آئینی حلقوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس پچاس نشستوں کے پروگرام میں خواتین کے لیے 90 فیصد اور مردوں کے لیے صرف 10 فیصد نشستیں مختص کی گئی ہیں، جو کہ کئی ماہرین کے نزدیک نہ صرف موجودہ قواعد کے خلاف ہے بلکہ آئین پاکستان کی ضمانت کردہ برابری کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے۔
پاکستان نرسنگ اینڈ مڈوائفری کونسل (پی این ایم سی) کے قواعد کے مطابق، بی ایس نرسنگ پروگرام میں داخلے مکمل طور پر اوپن میرٹ یعنی کھلی اہلیت کی بنیاد پر دیے جانے چاہئیں اور کسی قسم کا صنفی کوٹہ مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ پی این ایم سی کی سرکاری ہدایات میں بھی اس بات پر خصوصی طور پر زور دیا گیا ہے کہ ہر امیدوار کے لیے برابری کے مواقع ہونے چاہئیں۔ اس کے باوجود پمز نے ایک مخصوص صنفی کوٹہ سسٹم اپنا کر نہ صرف طلبہ و طالبات کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں، بلکہ اس عمل نے ادارے کی پالیسی کو قومی معیار سے بھی مختلف بنا دیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25 تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابر قرار دیتا ہے اور جنس کی بنیاد پر کسی بھی امتیاز کی ممانعت کرتا ہے۔ جب تک کوئی پالیسی خواتین یا بچوں کے لیے خصوصی سہولت کے طور پر نہ ہو، عام تعلیمی مواقع میں صنفی امتیاز کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح، آرٹیکلز 25-اے اور 37 میں سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع اور پبلک پالیسی میں برابری پر زور دیا گیا ہے۔
اس کے باوجود پمز نے 45 نشستیں خواتین اور صرف 5 مرد حضرات کے لیے مختص کر کے اس "تاریخی روایت” کو جاری رکھا ہے جو اب قانونی اور ضابطہ جاتی بنیادوں پر ناقابلِ جواز سمجھی جاتی ہے۔ 2023 میں پی این ایم سی ایکٹ میں کی گئی ترامیم میں بھی معیار سازی اور اوپن میرٹ پر زور دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں صنفی کوٹہ کی گنجائش مزید محدود ہو گئی ہے۔
اس کوٹہ سسٹم کے باعث کئی امیدواران، خصوصاً مرد طلبہ، یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اہلیت کے باوجود انہیں محض جنس کی بنیاد پر مواقع سے محروم کیا جا رہا ہے۔ قانونی ماہرین اور طلبہ کے نمائندے اس بات پر متفق ہیں کہ متاثرہ امیدوار پی این ایم سی میں شکایت درج کر سکتے ہیں یا ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کر سکتے ہیں۔ اس پالیسی کو کئی مبصرین ایک امتیازی اقدام قرار دیتے ہیں جو امیدواروں کے ساتھ صرف ان کی جنس کی بنیاد پر ناروا سلوک کے مترادف ہے۔
قانونی تقاضوں اور ادارہ جاتی پالیسی کے درمیان یہ واضح تضاد اس اہم مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے کہ تعلیمی اداروں کو اپنی پالیسیوں کو نہ صرف موجودہ ضابطوں بلکہ آئینی ضمانتوں کے عین مطابق بنانا چاہیے۔ تعلیم میں برابری اور انصاف کے اصولوں پر جاری بحث کے تناظر میں یہ معاملہ خاص طور پر توجہ کا متقاضی ہے۔


محترم جناب ندیم تنولی صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میل سٹوڈنٹس کے اس مسئلہ کو میڈیا کی سطح پر اُجاگر کیا،،لیکن آپکی معلومات میں اضافے کیلئے میں یہ عرض کرنا چاہونگا کہ یہ قانونی اور آئینی ناانصافی صرف پمز کے کالج آف نرسنگ میں نہیں بلکہ پولی کلینک کالج آف نرسنگ کی طرف سے بھی تیسرے سال سے ہو رہی ہے اور کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔۔
دونوں کالجز کی ناکام اور نا اہل انتظامیہ اپنی ناکامیوں اور نا اہلی پر پردہ ڈالنے اور اپنی انا کو تسکین بخشنے کیلئے میل سٹوڈنٹس کا نرسنگ کالجز میں داخلہ نا ممکن بنا چُکی ہے،،حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ میل سٹوڈنٹس کا aggregade فیملیز سے کافی زیادہ ہوتا ہے اور با آسانی وہ سیلیکٹ ہوسکتے ہیں مگر ان کیلئے سیٹس نہیں ہوتی،،اس کے بر عکس فیملیز کم aggregade پر بھی سیلیکٹ ہوجاتی ہے۔
یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ نرسنگ کے شعبے کو عزت ،وقار اور اہمیت بھی اِنہی میل نرسز کی وجہ سے ملی ہے۔
اس معاملے کا سیریس حل نکالا جائے اور آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے