پاکستان میں پیلی ایٹو کیئر کی شدید کمی

newsdesk
7 Min Read
پاکستان میں ہر سال دس لاکھ افراد کو پیلی ایٹو کیئر کی ضرورت مگر صرف پندرہ سے تیس ہزار تک سہولت ملتی ہے، نئے آن لائن نظام سے بہتری کی کوششیں جاری ہیں۔

پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد کو پیلی ایٹو کیئر کی ضرورت، مگر صرف 30 ہزار کو سہولت مل پاتی ہے
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا درد کم کرنے والی ادویات کیلئے آن لائن نظام متعارف کرانے کا اعلان

اسلام آباد: پاکستان میں ہر سال تقریباً 10 لاکھ افراد کو پیلی ایٹو کیئر یعنی شدید اور لاعلاج بیماریوں میں درد اور تکلیف کم کرنے کی طبی سہولت کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں کینسر، ٹی بی، ایچ آئی وی ایڈز، ذیابیطس اور دل کی آخری درجے کی بیماریوں کے مریض شامل ہیں، تاہم ان میں سے صرف 15 ہزار سے 30 ہزار افراد ہی اس سہولت تک پہنچ پاتے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق اس کی بڑی وجوہات تربیت یافتہ عملے کی کمی اور درد کم کرنے والی ضروری ادویات تک رسائی میں رکاوٹیں ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ ان مسائل پر قابو پانے کیلئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے طریقہ کار کو آسان بنانے اور اسپتالوں کیلئے درد کم کرنے والی اوپیئڈ ادویات کی دستیابی بہتر بنانے کیلئے ایک نیا آن لائن نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا آغاز اسلام آباد سے کیا جائے گا۔

یہ یقین دہانی ہیلتھ سروسز اکیڈمی میں کنٹرولڈ ڈرگز کے ضوابط اور پیلی ایٹو کیئر سے متعلق رابطہ اجلاس کے دوران کرائی گئی، جہاں ڈریپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد انصر نے کہا کہ جان لیوا بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو بروقت درد سے نجات دلانے کیلئے عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

اجلاس کی مشترکہ صدارت برطانیہ کی فیکلٹی آف پبلک ہیلتھ سے منسلک اسپیشل انٹرسٹ گروپ پاکستان کی ڈاکٹر سامیہ لطیف اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر پروفیسر شاہزاد علی خان نے کی۔ اجلاس میں پاکستان اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز، فارماسسٹس، پبلک ہیلتھ ماہرین، ریگولیٹرز اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں نے بالمشافہ اور آن لائن شرکت کی۔

محمد انصر نے بتایا کہ کنٹرولڈ ادویات کے حصول کیلئے کاغذی کارروائی کم کی جا رہی ہے اور ایک نیا ڈیجیٹل پروکیورمنٹ سسٹم تیار کر لیا گیا ہے، جس سے منظوری کا دورانیہ چار ماہ سے زائد کے بجائے صرف دو سے چار ہفتوں تک محدود ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کو پہلے اسلام آباد میں آزمایا جائے گا، جس کے بعد اسے پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں میں شدید درد کے علاج کیلئے اورل مورفین سیرپ کی رجسٹریشن دی جا رہی ہے تاکہ اس کی دستیابی ممکن ہو سکے، جبکہ جدید درد کم کرنے والی ادویات جیسے فینٹانائل اور بیوپرینورفین پیچ درآمد کرنے کی تیاری بھی کی جا رہی ہے، جو دنیا بھر میں پیلی ایٹو کیئر میں استعمال ہوتی ہیں۔

محمد انصر نے کہا کہ ٹراماڈول کو بھی جلد کنٹرولڈ ادویات کی فہرست میں شامل کیا جائے گا اور اسے صرف نسخے پر فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس دوا کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے اس کے خام مال پر سخت نگرانی ہوگی، تاہم اصل مریضوں کیلئے اس کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی۔

پروفیسر شاہزاد علی خان نے کہا کہ پیلی ایٹو کیئر پاکستان کے صحت کے نظام کا ایک نہایت اہم مگر نظر انداز کیا گیا شعبہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ صرف علاج پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے باعث ہزاروں مریض غیر ضروری درد اور اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ درد کم کرنے والی ادویات تک رسائی، تربیت یافتہ عملے کی تیاری اور اوپیئڈ ادویات سے متعلق غلط فہمیوں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔

ڈاکٹر سامیہ لطیف نے کہا کہ پیلی ایٹو کیئر کا مقصد مریض اور اس کے خاندان کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانا ہے، جس میں جسمانی، ذہنی، سماجی اور روحانی تکالیف کا ازالہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بہت سے مریض اور ڈاکٹر پیلی ایٹو کیئر یا اوپیئڈ ادویات کو موت کے قریب ہونے کی علامت سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں کو بروقت ریفر نہیں کیا جاتا اور وہ غیر ضروری تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریگولیٹرز اور دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے نظام بنائیں جن سے ضروری ادویات تک رسائی بھی ممکن ہو اور ان کے غلط استعمال کو بھی روکا جا سکے۔

مسئلے کی سنگینی پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر وسیم گل نے کہا کہ اوپیئڈ ادویات تک رسائی کے معاملے میں پاکستان خطے اور ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کیلئے سالانہ مورفین کا کوٹہ تقریباً 20 کلوگرام ہے، جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت میں فی کس دستیابی اس سے کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ محدود کوٹہ بھی مکمل طور پر استعمال نہیں ہو رہا اور حالیہ برسوں میں پاکستان میں مورفین کا استعمال سات کلوگرام سے زیادہ نہیں رہا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ مریضوں کی کمی نہیں بلکہ نظامی رکاوٹیں ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے منشیات و جرائم کے کامران نیاز نے کہا کہ عالمی منشیات کنٹرول معاہدوں کا مقصد طبی استعمال کیلئے کنٹرولڈ ادویات کی دستیابی یقینی بنانا ہے، تاہم بہت زیادہ سخت قوانین نے دنیا بھر میں درد سے نجات میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اہم رکاوٹوں میں تربیت کی کمی، نشے اور قانونی کارروائی کا خوف، ادویات کے حصول میں مشکلات اور ان کے غلط استعمال کے خدشات شامل ہیں، جس کی وجہ سے ڈاکٹر شدید درد کے باوجود مناسب ادویات تجویز کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

اجلاس کے دوران ڈریپ نے اپنا نیا ڈیجیٹل سافٹ ویئر پیش کیا، جس کے ذریعے اسپتال کنٹرولڈ ادویات کیلئے کوٹہ بڑھانے کی درخواست دے سکیں گے۔ اسلام آباد میں اسپتالوں کی تربیت کے بعد اس نظام کا باقاعدہ آغاز جنوری 2026 میں کیا جائے گا، جس کے تجربات کی بنیاد پر اسے ملک بھر میں پھیلایا جائے گا

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے