عالمی ادارۂ صحت اور آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے کراچی میں منعقدہ سیمینار میں شرکت کرنے والے بین الاقوامی اور ملکی ماہرین نے متفقہ طور پر کہا کہ تمام سائنسی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں اور عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کا مرحلہ پہنچا ہوا ہے۔ ماہرین نے زور دیا کہ ابھی پیچھے ہٹنے کا وقت نہیں اور یہ آخری دور ہے جس میں مستقل کوششیں درکار ہیں۔تقریب میں موجود ماہرین نے بتایا کہ پاکستان پولیو کے معاملات میں پچھلے تین دہائیوں میں نمایاں کمی دیکھ رہا ہے اور پولیو کے واقعات میں نوے فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق معاملات پچھلے سال کی نسبت بہت کم ہیں، اور اس پیش رفت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ویکسین موثر ہیں اور جانیں بچانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔خاتمہ پولیو کے حوالے سے بحث کے دوران ماہرین نے جرمنی میں حالیہ پولیو وائرس کی دریافت کو خطرے کی واضح مثال قرار دیا اور متنبہ کیا کہ محنت کم کرنا عالمی سطح پر نئی وبا کو جنم دے سکتا ہے۔ اس موقع پر ماہرین نے کہا کہ لاپرواہی کا خمیازہ بھاری ہو گا اور اس کے مقابلے میں عمل جاری رکھنے کی لاگت کم رہے گی۔تقریب کا انعقاد کراچی میں ہوا اور اس میں چار سو سے زائد شرکاء نے شرکت کی، جن میں طبی ماہرین، سرکاری نمائندے، طلبہ اور شراکت دار ادارے شامل تھے۔ میزبانی عالمی ادارۂ صحت اور آغا خان یونیورسٹی نے کی جبکہ گفتگو کا باقاعدہ انتظام اور اعتدال ڈاکٹر علی فیصل سلیم نے کیا۔عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے ڈاکٹر لوو ڈاپنگ نے کہا کہ سائنس واضح کرتی ہے کہ خاتمہ پولیو ممکن ہے اور یہ وقت رکے نہیں بلکہ دوبارہ عزم مضبوط کرنے کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وائرس سرحدیں نہیں دیکھتا اور ہر بچے کی حفاظت عالمی ذمہ داری ہے۔صوبہ سندھ کی وزیر صحت عذرا فضل پچوہو نے کہا کہ یہ مرحلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی اہمیت کا حامل ہے اور تمام متعلقہ فریقین کی مشترکہ کوششیں درکار ہیں۔ وزیراعظم کے پولیو منصوبے کی نمائندہ عائشہ رضا فاروق نے ادارہ جاتی نگرانی اور سائنس پر مبنی آپریشنز کی تعریف کی اور کہا کہ ملک میں حساس نگرانی کا نظام قائم ہے جو وائرس کا بروقت پتا لگانے میں مدد دے رہا ہے۔ماہرین نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ موجودہ جدید نگرانی اور جینیاتی ترتیب کی تکنیک نے وائرس کی شناخت میں مدد دی ہے اور اسی بدلے ہوئے منظر نامے نے ہمیں یہ سمجھنے میں آسانی پیدا کی ہے کہ کہاں مزید توجہ درکار ہے۔ اسی سلسلے میں پروگرام کے نگرانی نظام کو غیر معمولی حساس قرار دیا گیا۔روٹری انٹرنیشنل کے قومی کمیٹی کے چیئرمین عزیز میمن نے چار دہائی سے زیادہ تجربے کی بنیاد پر امید کا پیغام دیا اور کہا کہ ماضی میں دنیا بھر میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں، اس بار بھی مکمل عزم کے ساتھ کام جاری رکھا جائے گا۔ آغا خان یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر کریم دمجی نے شراکت داری اور کمیونٹی انگیجمنٹ کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ قیادت جب عوام اور اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے تو بڑے اہداف پورے ہو سکتے ہیں۔شرکاء نے ایک بار پھر اس نتیجے پر اتفاق کیا کہ خاتمہ پولیو اب نظریہ نہیں بلکہ حقیقی طور پر قابل حصول منزل ہے، البتہ اس کے حصول کے لیے مستقل و علاقے تک پہنچنے والی ویکسین اور حساس نگرانی کا تسلسل لازم ہے۔ انہوں نے عوام اور تمام شراکت داروں سے اپیل کی کہ اس آخری مرحلے میں سنجیدگی اور یکجہتی برقرار رکھی جائے تاکہ پولیو کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔
