پاکستان نے اقوام متحدہ کے جنیوا اجلاس میں عالمی پلاسٹک آلودگی کے مسئلے پر منصفانہ ذمہ داری اور عملی حل پیش کیے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک نے نہ صرف ترقی پذیر ممالک پر پلاسٹک فضلے کے غیر منصفانہ بوجھ کو اجاگر کیا، بلکہ مسئلے کے حل کے لیے دو اہم تجاویز بھی سامنے رکھیں—جس میں پلاسٹک فنڈ کے قیام اور عالمی کریڈٹ مارکیٹ کے قیام پر زور دیا گیا۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے جنیوا میں "عالمی پلاسٹک معاہدہ” کے حوالے سے ہونے والے وزارتی ڈائیلاگ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امیر ممالک کی پلاسٹک کی کھپت ترقی پذیر ملکوں کے مقابلے میں بیس گنا تک زیادہ ہے۔ ان ممالک کی جانب سے کم قیمت، غیر معیاری یا ناقابل ری سائیکل پلاسٹک فضلہ اکثر "ری سائیکلیبلز” کے نام پر پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ریاستوں کو برآمد کیا جاتا ہے، جسے یہ ملک مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث کھلے میدانوں میں پھینکنے یا جلا دینے پر مجبور ہیں۔ اس سے نہ صرف فضائی، آبی اور زمینی آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ عوام کی صحت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
وزیر ماحولیات نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ مغربی یورپ میں ہر فرد سالانہ 150 کلو گرام پلاسٹک استعمال کرتا ہے، جبکہ پاکستان میں فی کس پلاسٹک کھپت صرف 7 کلوگرام ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں یہ شرح بالترتیب 8 اور 6 کلوگرام جبکہ نائجیریا، ایتھوپیا اور کینیا میں 5 سے 6 کلوگرام کے درمیان ہے۔ اس کے باوجود یہ ممالک پلاسٹک آلودگی کے نقصانات سب سے زیادہ جھیل رہے ہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے عالمی سطح پر دو نکاتی حل تجویز کیے۔ سب سے پہلے، "توسیعی کنزیومر ریسپانسبلٹی” کا فریم ورک متعارف کرانے کی تجویز دی گئی، جس کے تحت فضلے کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کی کھپت کو بھی ذمہ داری کے تعین میں شامل کیا جائے۔ زیادہ کھپت والے ممالک کو پلاسٹک فنڈ میں مالی تعاون فراہم کرنا ہوگا، تاکہ ترقی پذیر ملکوں میں ری سائیکلنگ پلانٹس، جدید سہولیات اور تکنیکی نظامات قائم کیے جا سکیں۔
دوسری بڑی تجویز "عالمی پلاسٹک کریڈٹ مارکیٹ” کا قیام ہے، جہاں ترقی پذیر ممالک کو ری سائیکلنگ، فضلے کی جمع آوری اور روک تھام میں عملی پیش رفت پر کریڈٹس ملیں گے۔ زیادہ کھپت کرنے والے ممالک ان کریڈٹس کو خرید کر اپنی گلوبل ذمہ داری پوری کر سکیں گے۔ اس فنڈ سے ری سائیکلنگ سسٹم میں بہتری اور غیر رسمی ویسٹ ورکرز کو محفوظ اور باعزت روزگار کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی معاہدے میں انصاف اور شفافیت کو مرکزی اصول بنایا جائے اور کوئی غریب ملک پلاسٹک فضلے کا ڈمپنگ گراؤنڈ نہ بنے۔ ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ پلاسٹک آلودگی صرف ماحولیاتی معاملہ نہیں بلکہ انصاف، مساوات اور خودمختاری کا مسئلہ ہے۔ پاکستان ایسے مستقبل کی قیادت کرنے کیلئے تیار ہے، جہاں آنے والی نسلیں صاف ستھری فضاء، دریا اور زمین کی وارث ہوں۔
