پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پائیدار اصلاحات اور نئے انتظامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بزنس لیڈرز نے پاکستان کی کمزور معیشت، شرح سود میں اضافے، برآمدات میں کمی اور انتظامی تقسیم سے متعلق مسائل کو اجاگر کیا اور حکومت کے ساتھ مل کر اقتصادی بحالی کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ناصر منصور قریشی نے کہا کہ پاکستان مشکل معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور معیشت کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ ان کے مطابق پائیدار معاشی اصلاحات اور مسائل کے فوری حل سے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی معیشت کی اصل اسٹیک ہولڈر ہے اور ملک کی معاشی بحالی کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ملک میں معاشی بحالی، پائیدار ترقی اور ترقی کے ثمرات کو نچلی سطح تک پہنچانے کے لیے نئے صوبے قائم کرنا ضروری ہیں۔ انہوں نے صوبوں میں نئی انتظامی تقسیم اور ڈسٹرکٹ اکانومی کو فروغ دینے پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ میں لانا، بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنا اور انفراسٹرکچر کی بہتری جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ نجکاری کے عمل کو فوری مکمل کیا جائے اور ملکی برآمدات کو 2030 تک 100 ارب ڈالر تک لے جانے کے ہدف پر تیزی سے کام کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی اتنی بڑی آبادی کو موجودہ انتظامی ڈھانچے کے ساتھ بہتر انداز سے چلانا مشکل ہو گیا ہے۔
یونائیٹڈ بزنس گروپ کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں بے شمار مواقع موجود ہیں اور ہر شعبے سے پانچ ارب ڈالر کی برآمدات ممکن ہیں۔ انہوں نے حکومت کی انڈسٹریل پالیسی کو سراہا اور کہا کہ ملک کی بہادر افواج نے ہمیشہ ملک کا دفاع کیا ہے، اب معیشت کے معرکے میں بھی کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔ ایس ایم تنویر کے مطابق بھارت کی معیشت چار ٹریلین ڈالر تک جا پہنچی ہے جبکہ پاکستان کی معیشت 410 ارب ڈالر تک محدود ہے۔ انہوں نے زراعت کے شعبے کے بحران، کپاس کی پیداوار میں شدید کمی اور ویلیو ایڈیشن کے فقدان پر بھی تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک فیصد شرح سود میں کمی سے حکومت کے قرضوں میں 3500 ارب روپے تک کمی کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں 40 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے اور ہم سالانہ 12 ارب ڈالر صرف شرح سود کی مد میں ادا کر رہے ہیں، جبکہ چھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا پڑ رہا ہے۔
ماہرین اور بزنس قیادت نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ شرح سود میں کمی، انفراسٹرکچر کی بہتری، برآمدات میں اضافے اور صنعت و زراعت کے شعبوں کی مکمل بحالی کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں تاکہ پاکستان کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔
