چنگیزخان جدون
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک جامع سفارتی حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینا، غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد پہنچانا اور مسئلہ کشمیر و یوکرین سمیت اہم عالمی امور پر پاکستان کا مؤقف مضبوطی سے پیش کرنا شامل ہے۔ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے حالیہ دورۂ پاکستان کے بعد دونوں ممالک نے ثقافتی اور مذہبی روابط کی بنیاد پر تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ ملاقاتوں میں بارٹر ٹریڈ کے فروغ، پاکستانی چاول، پھل اور گوشت کی برآمدات کے کوٹہ میں اضافہ، اور نئے سرحدی بازار قائم کرنے کے منصوبوں پر بات ہوئی۔ موجودہ سالانہ تین ارب ڈالر کی تجارت کو دس ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف طے کیا گیا۔ پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ حالیہ تنازع کے بعد ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ٹرانسپورٹ و لاجسٹکس کے شعبوں میں مزید تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
غزہ کی صورتحال پر پاکستان کی انسانی ہمدردی کی کوششوں کو اجاگر کیا گیا، جس کے تحت نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار کی نگرانی میں 18 قافلوں کے ذریعے 1,815 ٹن امدادی سامان، جس میں خوراک، ادویات اور ضروری اشیاء شامل ہیں، روانہ کیا گیا۔ پاکستان نے فوری جنگ بندی اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی سیاسی حل پر زور دیا۔ وزارتِ خارجہ نے اسرائیلی آبادکاروں اور وزراء کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اس مقدس مقام کا تحفظ یقینی بنایا جائے، بصورت دیگر خطے میں بڑے پیمانے پر تشدد بھڑک سکتا ہے۔
یوکرین تنازع پر وزارتِ خارجہ نے پاکستانی شہریوں کے روسی افواج کے ساتھ شریکِ جنگ ہونے کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ یوکرینی حکام نے بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ پاکستان غیر جانبدار پالیسی پر قائم ہے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق مذاکراتی حل کی حمایت کرتا ہے۔
کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ 2019 میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات کی سالگرہ پر پاکستان نے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کے رہنماؤں کو خطوط ارسال کیے گئے، جبکہ اسلام آباد میں مظاہرے کے ذریعے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان نے واضح کیا کہ بھارت کے مزید یکطرفہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوں گے۔
وزارتِ خارجہ نے ایران-پاکستان گیس پائپ لائن پر جاری تکنیکی بات چیت کی تصدیق کی اور کہا کہ امریکہ کے ساتھ حالیہ روابط معمول کی سفارت کاری کا حصہ ہیں۔ کابل میں پاکستان کے سفارتی مشن کی اپ گریڈیشن افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ حکام نے واشنگٹن کے ساتھ کسی خفیہ معدنی معاہدے یا اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے بیک ڈور رابطے کی تردید کی۔ اسی طرح بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے شواہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ صورتحال پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ ویزہ پالیسی سے متعلق غیر مصدقہ خبروں کو وزارتِ داخلہ کا دائرۂ اختیار قرار دیا گیا۔
ان تمام اقدامات کے ذریعے پاکستان نے ایک فعال اور متحرک سفارت کاری کی تصویر پیش کی ہے، جو ایران سے تعلقات کے فروغ، غزہ کی مدد، کشمیر کی وکالت، عالمی تنازعات میں غیر جانبداری اور خطے میں استحکام کے حصول پر مبنی ہے۔
