اسلام آباد میں ایک علمی تقریب میں سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری کی کتاب "Pakistan-India Relations – Fractured Past, Uncertain Future” رونمائی کی گئی، جس میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں پائی جانے والی عدم اعتماد، کشمیر کی رفتار اور خطے میں بالادستی کے رجحانات کا تجزیہ پیش کیا گیا۔ تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ، انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز اور سانوبَر انسٹی ٹیوٹ کے نمائندے، سابق وزراء و عسکری ماہرین اور تعلیمی حلقوں کے نمائندے شریک ہوئے اور کتاب کے اہم نکات پر تبادلہٴخیال کیا گیا۔
کتاب، جسے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز اسلام آباد اور سانوبَر انسٹی ٹیوٹ نے مشترکہ طور پر متعارف کرایا، مصنف کے سفارتی تجربے اور پاکستان-بھارت امن عمل سے قریبی رابطے کی بنیاد پر تعلقات کے تاریخی اور سیاسی پہلوؤں کا تفصیلی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ مصنف نے نشست میں بنیادی سوال اٹھایا کہ کیا ہمسایہ تعلقات میں ناکامی دراصل حل طلب تنازعات کا نتیجہ ہے یا ان کے پیچھے وسیع تر جیوپولیٹیکل اور نظریاتی عوامل کارفرما ہیں۔
اعزاز احمد چوہدری نے کتاب میں بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل سے ہچکچاہٹ، دہشت گردی کے بیانیے کا سیاسی استعمال اور خطے میں بالادستی کی خواہش کے اثرات کو مفصل انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے ماضی کی غلطیوں اور ممکنہ محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے جنوبی ایشیا کے لیے ایک مزید پرامید اور باہمی احترام پر مبنی مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالی۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی مصروف کوششوں کے باوجود تعلقات عدم اعتماد کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بھارت کے خطے میں بالادستی کے رجحانات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ فوجی جھڑپ نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ خطے میں پائیدار امن اسی صورت ممکن ہے جب تمام حل طلب معاملات کو خلوصِ نیت کے ساتھ حل کیا جائے اور تمام فریق ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کریں۔ وزیر اطلاعات نے مصنف کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب خطے کی کشیدگی اور پاکستان کے امن کے تصور کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔
انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے صدر سفیر جوہر سلیم نے کہا کہ کشیدگی کے باوجود تعاون کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں اور دونوں ممالک کو سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے فریم ورک اپنانا ہوں گے جو باہمی احترام اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صفر جمعی سوچ ترک کرنے سے خطے میں استحکام اور طویل مدتی خوشحالی ممکن بن سکتی ہے۔
سابق وفاقی وزیر انجینئر خرم دستگیر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک بھارت کی جارحانہ پالیسیاں رابطوں کو متاثر کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے بیانیہ جاتی سیاست، قومی سلامتی اور شناخت کے مضمونات کی شدت کو باعث تشویش قرار دیا اور کہا کہ اس سے دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا متاثر ہوئی ہے، جس کا تازہ ثبوت حالیہ جھڑپوں میں دیکھا گیا۔
صدرِ پاکستان کے ترجمان مرتضیٰ سولنگی نے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے کتاب کے متعلق کہا کہ حالیہ بھارتی جارحیت اور پاکستان کے مؤثر دفاع کے مباحث کو کتاب میں تفصیل سے جگہ دی گئی ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر بھارت تعمیری اور تعاون پر مبنی رویہ اپناتا تو جنوبی ایشیا بہت پہلے طویل امن حاصل کر چکا ہوتا۔
سابق صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض (ریٹائرڈ) نے کتاب کے اس پہلو کی تعریف کی جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارت کے مزاحمتی روئیے نے مسئلہ کشمیر کو حل طلب رکھا اور سرحد پار دہشت گردی کے بیانیے کو سیاسی اغراض و مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ ان کے بقول تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ متعدد دہشت گردی کے واقعات میں اندرونی عناصر بھی شامل رہے مگر الزامات پاکستان پر منسلک کر دیے گئے۔
فیکلٹی آف کنٹیمپرری اسٹڈیز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ڈین پروفیسر عرشی سلیم ہاشمی نے کہا کہ کتاب کا آغاز برصغیر میں ہندو اور مسلم قوم پرستی کے عروج کی جامع تشریح سے ہوتا ہے اور یہ بہت سے ایسے سوالات کے مناسب جوابات فراہم کرتی ہے جو پاکستان کے خلاف اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے کتاب کے آخری باب کی بھی ستائش کی جس میں متعدد معاہدات اور اعتماد سازی کے اقدامات درج ہیں، جو تعاون کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں، بشرطیکہ بھارتی قیادت اپنی پاکستان مخالف پالیسیاں از سرِ نو مدِ نظر رکھے۔
تقریب کی رونمائی براہِ راست نشر کی گئی اور سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کیا جا رہا ہے۔ آئندہ ہفتوں میں کتاب کے تناظر میں علمی نشستیں، مباحث اور پوڈکاسٹ کا انعقاد بھی متوقع ہے تاکہ نوجوان محققین اور ماہرین اس کے مندرجات پر تفصیلی گفتگو کرسکیں اور عملی تجاویز پر غور کیا جا سکے۔
تقریب میں شریک ماہرین اور مقررین نے مشترکہ طور پر اس بات پر زور دیا کہ خطے کی پائیدار سلامتی صرف باہمی احترام، اعتماد سازی اور عملی مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے، اور علمی مباحث ایسے اقدامات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
