پاکستان میں ذیابیطس کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ، ڈبلیو ایچ او کا قومی سطح پر فوری اقدامات کا مطالبہ
اسلام آباد – عالمی یومِ ذیابیطس پر عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان کو سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملک میں ذیابیطس تیزی سے وبائی صورت اختیار کر رہی ہے۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ 45 لاکھ بالغ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں، یعنی ہر تین میں سے ایک پاکستانی بالغ اس بیماری میں مبتلا ہے۔ شرحِ پھیلاؤ کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے، جبکہ مشرقی بحیرۂ روم ریجن کے مجموعی مریضوں کا 40 فیصد سے زائد صرف پاکستان میں موجود ہے۔
صورتحال کی سنگینی کے پیشِ نظر ڈبلیو ایچ او اور وزارتِ قومی صحت نے ملک بھر کے اسپتالوں اور کلینکس میں مفت ذیابیطس اسکریننگ مہم تیز کر دی ہے، جس کا مقصد بیماری کا جلد پتہ چلانا اور بینائی ختم ہونے، گردے ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور اعضا کی کٹائی جیسے شدید اور ناقابلِ تلافی نتائج سے بچاؤ کو ممکن بنانا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق خطے میں ذیابیطس کے شکار ہر 10 میں سے 4 افراد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہیں، جس کے باعث لاکھوں افراد بروقت علاج سے محروم رہ جاتے ہیں اور دیر سے تشخیص انہیں شدید پیچیدگیوں کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
وفاقی وزیرِ صحت سید مصطفیٰ کمال نے اس موقع پر قوم سے براہِ راست اپیل کی۔
“آج عالمی یومِ ذیابیطس کے موقع پر ہم اس بیماری کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی جانب توجہ مبذول کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم ذیابیطس پروگرام کے تحت ہم مفت اسکریننگ، ابتدائی تشخیص اور صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دے رہے ہیں۔ تمام شہری اپنی رسک پروفائل جانیں، ٹیسٹ کروائیں اور صحت مند خوراک اور باقاعدہ جسمانی سرگرمی جیسے آسان اقدامات اختیار کریں۔”
ڈبلیو ایچ او کے پاکستان میں نمائندہ ڈاکٹر لُو داپینگ نے بھی سخت پیغام دیا۔
“ذیابیطس ایک خاموش قاتل ہے، لیکن ہم سب سادہ احتیاطی تدابیر اور باقاعدہ طبی معائنے سے خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ روک تھام بہترین علاج ہے، اور ڈبلیو ایچ او پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے تاکہ اس بیماری کا پھیلاؤ روکا جا سکے اور وقت پر علاج یقینی بنایا جا سکے۔”
عالمی منظرنامہ بھی تشویشناک ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 1990 میں بالغ ذیابیطس مریضوں کی تعداد 20 کروڑ تھی جو 2022 میں بڑھ کر 83 کروڑ تک پہنچ گئی۔ تخمینوں کے مطابق اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو 2050 تک یہ تعداد 1.3 ارب تک پہنچ سکتی ہے، اور سب سے زیادہ بوجھ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر پڑے گا۔
اس کے باوجود امید باقی ہے۔ ماہرین کے مطابق ذیابیطس ٹائپ ٹو — جو 90 سے 95 فیصد کیسز کا حصہ ہے — بڑی حد تک قابلِ روک تھام ہے۔ متوازن خوراک، کم چینی کا استعمال، ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی جسمانی سرگرمی، باقاعدہ اسکریننگ، موثر علاج، اور تمباکو سے پرہیز ایسے اقدامات ہیں جو بیماری اور اس کی پیچیدگیوں کو کم کر سکتے ہیں۔
ملک بھر میں کراچی سے پشاور تک اسکریننگ کیمپس سرگرم ہیں، اور پیغام ایک ہی ہے: آگاہی ہی تحفظ ہے۔ ہر پاکستانی کو اپنی صحت کا جائزہ لینے، ٹیسٹ کروانے اور ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لیے آج ہی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

