سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی برآمدات ڈنمارک کو واضح رفتار کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ مالی سال ٢٠٢٢–٢٣ میں ایک سو نوے ملین امریکی ڈالر کے مقابلے میں مالی سال ٢٠٢٤–٢٥ میں یہ رقم تین سو ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی، جب کہ پچھلے مالی سال میں یہ اضافہ ۳۲ فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ اس پیشرفت نے ڈنمارک کو پاکستانی برآمدات کے لیے تیزی سے اہم منڈی بنا دیا ہے اور یہ رجحان شمالی یورپ کی منڈیوں تک رسائی کے امکانات کو بھی تقویت دیتا ہے۔ڈنمارک کی معیشت نسبتا چھوٹی ہونے کے باوجود مضبوط خریدار طاقت اور معیار پسند صارفین کی وجہ سے قابل توجہ رہی ہے۔ وہاں کی بڑھتی ہوئی مانگ خاص طور پر معیاری ٹیکسٹائل اور پائیدار مصنوعات کی جانب رہی ہے، جس سے پاکستانی کاروباریوں کو نئی برآمدی راہیں میسر آئیں۔ ڈیٹا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ڈنمارک میں پاکستانی برآمدات کا تسلسل برقرار رہنے سے مجموعی ایکسپورٹ پورٹ فولیو میں بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ٹیکسٹائل شعبے نے اس اضافے میں کلیدی کردار ادا کیا جہاں ڈنمارکی فیشن کمپنی بیسٹ سیلر نے پاکستان سے اپنے سورسنگ کو بڑھایا۔ کمپنی نے پاکستانی مصنوعات کی معیاریت اور خاص طور پر ماحولیاتی اور محنت و مزدوری کے معیارات کی پابندی کو اپنا اہم سبب قرار دیا جس کی بنا پر ڈنمارک کی ٹیکسٹائل مانگ میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ اقدام پاکستانی ٹیکسٹائل شعبے کے لیے نہ صرف آمدنی کے نئے ذرائع بلکہ بین الاقوامی معیار پر کھڑے ہونے کا ثبوت بھی سمجھا جا رہا ہے۔کوپن ہیگن میں پاکستان کا سفارت خانہ بھی تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں سرگرم رہا ہے۔ سفارت خانے نے کاروباری روابط کو ہموار کرنے، پیشہ ورانہ تبادلوں کی حمایت اور کاروباری ویزا نظام کی آسانیوں کے ذریعے تاجروں اور سرمایہ کاروں کی ڈنمارک میں دلچسپی کو فروغ دیا ہے۔ ان سفارتی کوششوں کو تجارتی مفادات کے فروغ اور دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری رابطوں میں گہرائی پیدا کرنے کی کلید سمجھا جا رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ ڈنمارک کی جغرافیائی حیثیت اور شمالی یورپ میں مقام پاکستانی کاروباریوں کو اسکینڈینیوین خطے تک رسائی کا ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ اس پیشرفت کے ساتھ ڈنمارک اب پاکستان کے برآمدی مقامات میں ۲۵ میں سے ایک شمار ہونے لگا ہے اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز توقع رکھتے ہیں کہ یہ مثبت رفتار مستقبل میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعاون کے نئے دروازے کھولے گی۔ ڈنمارک برآمدات کی اس کہانی نے پاکستانی صنعتوں کو معیار، پائیداری اور بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے کی اہمیت کا اعادہ کر دیا ہے۔
