پاکستان کی موسمی کمزوری اور کارپوریٹ احتساب

newsdesk
5 Min Read
ہینڈز نے جرمن کمپنیوں کے خلاف سیلابی نقصانات کی بنیاد پر مقدمہ تیار کیا، پاکستان موسمی انصاف اور قرض معافی کا مطالبہ کر رہا ہے

قدرتی آفات ہمیشہ سے موجود رہی ہیں مگر صنعتی ترقی، جنگلات کی کٹائی اور فوسل ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال نے انہیں انسانیت کے لیے تباہ کن بنا دیا ہے۔ پاکستان اگرچہ عالمی کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے اعتبار سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ہینڈز فلاحی تنظیم نے جرمن شراکت دار تنظیمن کے ساتھ مل کر کارپوریٹ احتساب کے راستے پر قدم رکھا ہے اور دو جرمن کمپنیوں کے خلاف جرمنی کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ بنیادی تحقیق میں لاڑکانہ اور جیکب آباد کے چھوٹے کسانوں کو نشانہ بنایا گیا جنہوں نے ۲۰۲۲ کے شدید سیلابوں میں ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا۔ تحقیق نے یہ واضح کیا کہ یہ سیلاب موسمی تبدیلیوں کا براہِ راست نتیجہ تھے اور اس بنیاد پر متاثرہ کسانوں سے معاوضہ وصول کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔پاکستان میں کمزور حکمرانی، ناقص انفراسٹرکچر اور بروقت امدادی نظام نہ ہونے کی وجہ سے معمولی قدرتی واقعات بھی انسانی آفات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ زرعی اراضی تباہ ہوئی، خوراک کی قلت پیدا ہوئی، مویشیوں کا نقصان ہوا اور صحت، تعلیم و نقل کے نظام بری طرح متاثر ہوئے جس کے باعث لاکھوں لوگ وقتی اور دائمی بنیادوں پر بے گھر ہوئے۔ہینڈز کا موقف یہ ہے کہ عالمی صنعتیں اور ان کے حمایتی ریاستیں جنہوں نے طویل عرصے تک فوسل ایندھن کے ذریعے منافع کمائے، انہیں اپنے کردار کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ موسمی انصاف کے تقاضے صاف ہیں: جنہوں نے نقصان پہنچایا ہے انہیں یا تو اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے یا متاثرہ کمیونٹیوں کو معاوضہ دینا ہوگا۔یہ مقدمہ عالمی پیمانے پر کارپوریٹ احتساب کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ ہینڈز اور اس کے جرمن شراکت دار تنظیمیں امید رکھتی ہیں کہ جرمن عدالت میں دائر کیا جانے والا مقدمہ وہ قانونی نظیر قائم کرے گا جو طاقتور اداروں کو ان کے اخراجات کم کرنے یا متاثروں کا ازالہ کرنے پر مجبور کرے گا۔پاکستان کو درپیش مسائل میں تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئر، زمین کھسکنے، اوورفلوز اور غیر معمولی بارشیں شامل ہیں۔ ان عناصر نے زرعی شعبے کو زبردست جھٹکا دیا، چھوٹے کسانوں کی روٹی کا سوال بن گیا اور ملکی معیشت کے نازک شعبے متاثر ہوئے۔ اسی وجہ سے موسمی انصاف ہر سطح پر ایک لازمی مطالبہ بن چکا ہے۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر فوری اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان کا مطالبہ جائز ہے کہ ان ممالک اور اداروں سے جو اس بحران کے سبب بنے، مالی اور تکنیکی امداد بروقت فراہم کی جائے۔ ساتھ ہی قرضوں کی معافی کو موسمی انصاف کا لازمی حصہ سمجھا جائے تاکہ قوم اپنی بقاء اور ماحولیاتی مستقبل کے لیے وسائل پیدا کر سکے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی غیر ملکی قرضہ جات فوری طور پر حقیقی موسمی انصاف کے تحت منسوخ کی جائیں، بے زمین کسانوں کو جامع زرعی اصلاحات کے ذریعے زمین کی مفت تقسیم یقینی بنائی جائے، صنعتی ممالک وہ سالانہ سو ارب امریکی ڈالر جو متاثرہ ملکوں کے لیے وعدہ کیے گئے ہیں جاری کریں، اور فوسل ایندھن کو دی جانے والی سبسڈیاں ختم کر کے قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دیا جائے۔ اسی طرح قدرتی ندی نالوں پر موجود تجاوزات ہٹائی جائیں اور بارش کے پانی کو محفوظ طریقے سے نکالنے کے لیے نکاسی کے راستے وسیع کیے جائیں تا کہ آئندہ موسمی آفات کا اثر کم سے کم ہو۔قومی و صوبائی آفات سے نمٹنے والے اداروں کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں قدرتی آفات کے لیے بروقت تیاری اور موثر ردعمل ممکن ہو۔ موسمی انصاف کے لیے یہ ضروری ہے کہ عالمی شراکت دار مالی اور تکنیکی مدد فوراً فراہم کریں اور پاکستان اپنے ترقیاتی منصوبوں کو ماحولیاتی استحکام کے مطابق ترتیب دے۔موسمی انصاف کا تقاضا صرف زبانی اپیل نہیں بلکہ عملی ذمہ داری ہے؛ جب تک بڑے کارپوریٹ اخراج میں کمی یا متاثرین کو معاوضہ دینے پر مجبور نہیں کیے جائیں گے، کمزور ممالک وہی تباہی سہتے رہیں گے جو انہوں نے پیدا نہیں کی۔ پاکستان کی آواز اسی عالمی تحریک کا حصہ بن کر اپنی بقاء اور آئندہ نسلوں کے لیے ماحول کے تحفظ کا مطالبہ کر رہی ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے