پی اے سی کی تحقیقات: پاکستان میں فراڈ، بیوروکریٹس کی جائیدادیں، اور فاٹا سیلز ٹیکس

4 Min Read

اسلام آباد :(ندیم تنولی) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے وفاقی اداروں کے افسران کی مبینہ طور پر پرتگال میں جائیدادیں خریدنے، سابق فاٹا میں سیلز ٹیکس کے نفاذ، اور وزارت مذہبی امور میں بارہ ملین روپے کی مبینہ خوردبرد سمیت متعدد معاملات پر سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی جنید اکبر کی زیر صدارت اجلاس میں وزارت داخلہ، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر سمیت تمام متعلقہ حکام کو آئندہ اجلاس میں مکمل بریفنگ اور جائیدادیں خریدنے والے افسران کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اجلاس کے دوران کمیٹی نے سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سیلز ٹیکس کے نفاذ پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور اس ضمن میں مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔ علاوہ ازیں، یوٹیلیٹی اسٹورز کی ممکنہ بندش پر بحث ہوئی اور مزيد معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وزارت مذہبی امور سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا، جس میں بیرون ملک سے آنے والی رقوم میں بارہ ملین روپے کی مبینہ خوردبرد کا معاملہ خاص طور پر زیر بحث آیا۔ چیئرمین پی اے سی نے ڈی جی حج سمیت متعلقہ اعلیٰ حکام کے کردار پر سوال اٹھایا، جبکہ سینیٹر افنان اللہ خان اور سینیٹر بلال مندوخیل نے بھی اس بات پر سخت شکوک وشبہات کا اظہار کیا کہ اتنی بڑی رقم کی خوردبرد اکیلا کوئی فرد نہیں کرسکتا۔ کمیٹی نے اس معاملے میں وزارت مذہبی امور کی جانب سے فوری کارروائی نہ کرنے اور ابھی تک ملزم کے خلاف ریڈ نوٹس جاری نہ ہونے یا جائیدادیں ضبط نہ کیے جانے پر بھی تنقید کی۔

وزارت مذہبی امور کے افسران نے کمیٹی کو بتایا کہ مشتبہ شخص، جو اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ تھا، نوکری سے برخاست ہوچکا ہے اور اس وقت کینیڈا میں مقیم ہے، اور اس نے فراڈ سامنے آنے سے قبل ہی ویزا حاصل کرلیا تھا۔ وزارت نے یہ بھی آگاہ کیا کہ ایف آئی اے کو باضابطہ کیس کے اندراج کے لیے خط لکھا گیا، جبکہ ایف آئی اے نے ملزم کے شناختی دستاویزات اور پاسپورٹ بلاک کرنے کی تصدیق کی۔ پی اے سی نے ملزم کی تمام جائیدادیں فوری ضبط کرنے اور ایک ماہ میں پیش رفت رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی۔

اجلاس میں سعودی عرب میں تعینات عملے کے مسائل بھی زیر غور آئے اور پی اے سی ارکان نے سوال اٹھایا کہ سال بھر اتنا بڑا پاکستانی عملہ کیوں تعینات رہتا ہے۔ کمیٹی کے ممبران ریاض فتیانہ اور محسن عزیز نے تجویز دی کہ وزارت کو بیرون ملک مقامی افراد کی خدمات زیادہ لینی چاہئیں۔ اس کے علاوہ، اس پر بھی بحث ہوئی کہ کیا ہر سال حج معاونت کے لیے مختلف ملازمین کو سرکاری خرچ پر بھیجا جاتا ہے۔ سیکرٹری مذہبی امور نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ تمام بھیجے جانے والے معاونین سرکاری ملازم ہیں اور انہوں نے آئندہ صرف گریڈ 11 اور اس سے اوپر کے ملازمین کو ایسی ذمہ داریاں دینے کی تجویز پیش کی۔ مزید یہ کہ ان معاونین کے علاوہ اور کوئی سرکاری ملازم مفت حج نہیں کرتا۔

Share This Article
ندیم تنولی اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہیں جو پارلیمانی امور، موسمیاتی تبدیلی، گورننس کی شفافیت اور صحت عامہ کے مسائل پر گہرائی سے رپورٹنگ کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے