آن لائن فراڈ – ہوشیار! کیسے بچا جائے اور قانونی کارروائی
تحریر: ظہیر احمد اعوان
جدید دور میں فریب، دھوکے اور فراڈ کے نت نئے طریقے سامنے آ چکے ہیں۔ آج کے اس ڈیجیٹل زمانے میں موبائل فون، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ایکس (ٹوئٹر)، انسٹاگرام، یوٹیوب اور واٹس ایپ کے ذریعے لاکھوں لوگ روزانہ کسی نہ کسی مالی یا ذاتی نقصان کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس فراڈ میں قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی نیٹ ورک بھی سرگرم ہیں جو انتہائی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے معصوم لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ جدید دور کا فریب فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، یا دیگر پلیٹ فارمز پر فراڈیے جعلی اکاؤنٹس بنا کر لوگوں کی تصویریں، معلومات اور نمبر حاصل کرتے ہیں، پھر انہی کے ذریعے دوسروں سے پیسے مانگتے ہیں یا بلیک میل کرتے ہیں۔اسی طرح بعض افراد فون کالز پر خود کو بینک، حکومت یا کسی کمپنی کا نمائندہ ظاہر کر کے “انعامی اسکیم” یا “ویریفکیشن کوڈ” کے بہانے اکاونٹ خالی کر دیتے ہیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے فراڈ میں جعلی سرمایہ کاری (Investment Scams) اور کرپٹو کرنسی کے نام پر لوٹ مار بھی عام ہو چکی ہے۔ بعض خوبرو خواتین سوشل میڈیا پر دوستی کر کے اغوا، بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے جرائم میں بھی ملوث پائی گئی ہیں۔عوامی آگاہی کی ضرورت دنیا بھر میں اس تیزی سے بڑھتے ہوئے سائبر فراڈ کے خلاف حکومتیں مسلسل آگاہی مہمات چلا رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اس حوالے سے متحرک ہے۔لیکن بدقسمتی سے عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس خطرے سے مکمل طور پر آگاہ نہیں۔ عام شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی معلومات، تصاویر اور دستاویزات کسی بھی نامعلوم شخص یا آن لائن پلیٹ فارم پر شیئر نہ کریں۔ پاکستان کا قانون
پاکستان میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016نافذ ہے۔
اس قانون کے تحت:
- کسی کا اکاؤنٹ ہیک کرنا، شناخت چرانا، یا کسی اور کے نام سے اکاؤنٹ چلانا جرم ہے۔
- کسی کو بلیک میل یا ہراساں کرنے پر تین سے سات سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
- کسی بھی مالی فراڈ، دھمکی یا بلیک میل کی صورت میں فوری طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔
ایف آئی اے کی ہیلپ لائن 1991 اور ویب پورٹل(www.nr3c.gov.pk) عوامی خدمت کے لیے قائم ہیں جہاں آن لائن شکایت درج کروانا آسان ہے۔
بین الاقوامی سطح پر قانون دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سائبر سیکیورٹی کو قومی سلامتی کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ - یورپی یونین نے GDPR (General Data Protection Regulation) کے تحت شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کو لازمی قرار دیا ہے۔
- مریکہ میں Federal Trade Commission (FTC) آن لائن مالی دھوکہ دہی اور فراڈ کے خلاف سخت ایکشن لیتی ہے۔
- انٹرپول (INTERPOL) نے عالمی سطح پر سائبر کرائم نیٹ ورک کو روکنے کے لیے خصوصی تحقیقاتی یونٹ قائم کیے ہیں۔
مذہبی اور اخلاقی پہلو
اسلام نے دھوکہ دہی اور فریب کو سختی سے منع کیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: “اور ناپ تول میں کمی نہ کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں پورے پیمانے سے دو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔” (سورۃ الشعراء: 183)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔”(صحیح مسلم)
اسلامی تعلیمات ہمیں سچائی، امانت اور دیانت کا درس دیتی ہیں۔ مسلمان معاشرے میں فریب، جھوٹ اور دھوکہ بازی کا کوئی تصور نہیں۔
خود کو محفوظ رکھنے کے چند آسان طریقے
- کسی بھی نامعلوم نمبر یا لنک پر کلک نہ کریں۔
- اپنی ذاتی معلومات یا بینک کی تفصیلات کسی کو نہ دیں۔
- سوشل میڈیا پر صرف جان پہچان والے افراد سے رابطہ رکھیں۔
- اکاؤنٹس پر Two-Step Verification لازمی فعال کریں۔
- مشکوک کال یا پیغام کی صورت میں فوراً ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو اطلاع دیں۔
- اگر کسی کو دھوکہ دیا گیا ہو تو قانونی کارروائی سے گریز نہ کریں۔
آن لائن فراڈ صرف ایک قانونی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔حکومت، میڈیا، اساتذہ، وکلاء اور عوام سب کو اس کے خلاف ایک اجتماعی کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہمیں ٹیکنالوجی سے فائدہ ضرور اٹھانا ہے، مگر ہوشیاری، احتیاط اور قانون پر عمل کے بغیر یہ سہولت نقصان میں بدل سکتی ہے۔آن لائن فراڈ سے بچاؤ صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے کیونکہ ایک باشعور، محفوظ اور ایماندار معاشرہ ہی ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
