پاکستان نرسنگ اور مڈوائفری کونسل ایک گہرے قیادتی بحران کا شکار ہے جس نے ادارے کو سخت غیر فعال کر دیا ہے اور سیکیورٹی فورسز کو مداخلت پر مجبور کر دیا۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب باقاعدہ تقرری کے حامل جواد امین خان نے عہدے کا رسمیت سے حلف لینے کی کوشش کی تو عہدے پر موجود ایک حلقہ حاضر ہونے سے انکار کر گیا، جس کے نتیجے میں حامیوں کے مابین تصادم ہوا اور پولیس نے صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔جواد امین خان کے بارے میں دستیاب دستاویزی ریکارڈ ان کے صنعتی اور فلاحی کیریئر کا واضح عکس پیش کرتا ہے۔ وہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے زا فا گروپ کے سربراہ رہے ہیں جہاں انہوں نے اٹھانوے کے عشرے میں بطور ڈائریکٹر مارکیٹنگ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ کمپنی کو بارہ ذیلی اداروں پر مشتمل ایک بڑے کاروباری گروپ میں تبدیل کیا، جس میں دوا سازی، پیکجنگ، زراعت اور بائیوٹیکنالوجی کے شعبے شامل ہیں۔ ان کا تجربہ کارانہ ریکارڈ بعض نہ چلنے والی فیکٹریوں کو منافع بخش اداروں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کے شواہد پیش کرتا ہے جس میں تین دیوالیہ پن کی حالت میں موجود یونٹس کی بحالی نمایاں ہے۔عوامی خدمت کے شعبے میں بھی جواد امین خان کا کردار خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن میں کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور وبائی امراض کے دوران قائم ہونے والی کووِڈ کمیٹی کی قیادت کی۔ ان کے پاس پاکستان میڈیکل کمیشن اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں شمولیت کا بھی تجربہ ہے جو انہیں صحت کے ضابطے اور احتساب کے معاملات میں عملی آگاہی فراہم کرتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر کے مشیر برائے کاروباری ترقی کی حیثیت سے ان کی مشاورتی خدمات اور بحریہ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹوری باوردی اداروں میں ان کے اعتماد کی عکاسی کرتی ہیں۔فلاحی شعبے میں ان کا کردار کم تحت الشعور نہیں۔ عبدالقیوم خان ویلفیئر ٹرسٹ کے ذریعے انہوں نے سیکڑوں طالب علموں کی تعلیم کا خرچ اٹھایا اور چار دہائیوں سے ادویات کے بڑے پیمانے پر عطیات جاری رکھے۔ انہوں نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کو جدید ایم آر آئی مشین فراہم کی اور زلزلہ و سیلاب متاثرین کے لئے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں ریلیف سرگرمیوں میں مسلسل حصہ لیا۔تعلیمی اور تربیتی پس منظر میں جواد امین خان کے پاس بی ایس آپریشنل مینجمنٹ اور ایم بی اے کی ڈگریاں ہیں اور انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے قیادتی تربیت حاصل کی۔ یہ پیشہ ورانہ اور انتظامی قابلیت انہیں صحت کے ضابطہ کار اداروں میں نظم و انضباط بحال کرنے کے لئے موزوں امیدوار ظاہر کرتی ہے۔قانونی تقرری اور عملی جدوجہد کے درمیان پھنسے پاکستان نرسنگ اور مڈوائفری کونسل کے مستقبل کا فیصلہ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے زیرِ غور ہے۔ سوال یہی ہے کہ آیا ملک کے نزدیک تجربہ کار مدیر اور فلاحی رہنما جواد امین خان کو ادارے میں نظم و شفافیت لانے کے لئے موقع دیا جائے گا یا موجودہ تنازع مزید ادارتی بے یقینی کو جنم دے گا۔
