نیشنل کمیشن برائے خواتین کی زیرِصدارت ایک اعلیٰ سطحی گول میز اجلاس منعقد ہوا جس کی قیادت اَم لیلیٰ اظہر نے کی۔ اجلاس میں متعلقہ وفاقی محکموں، جامعات اور ماہرینِ شعبہ نے شرکت کی اور پاکستان کے صنفی منظرنامہ کے درست اندازے کے لیے درکار اعدادوشمار کی کمزوریوں اور اصلاحی راستوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اجتماعی بحث کا محور ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی صنفی خلاء اشاریوں میں پاکستان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مستند اور ہم آہنگ ڈیٹا کی فراہمی تھا۔پاکستان بیورو برائے شماریات نے اجلاس کو چودہ متعلقہ اشاریوں کی تفصیل اور ان سے متعلقہ ڈیٹا کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔ بریفنگ میں واضح کیا گیا کہ غیر معیاری، نامکمل اور محدود کوریج والے ڈیٹا سورسز سے بین الاقوامی فہرستوں میں ملک کی نمائندگی متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر ادراکاتی سرویز کی کمی اور جزوی نجی ذرائع پر انحصار کئی اشاریوں کی درستگی کم کر رہا ہے۔شرکاء نے نشاندہی کی کہ اہم مسائل میں ڈیٹا کا مختلف اداروں میں منتشر ہونا، معیاری میٹاڈیٹا یا متحدہ درجہ بندی کا فقدان، سرکاری ڈیٹاسیٹس کا پرانا یا غیر دستیاب ہونا اور منتخب عہدوں اور باقاعدہ اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی کم نمائندگی شامل ہیں۔ ان مسائل نے نہ صرف صنفی پالیسی سازی میں خامیاں پیدا کی ہیں بلکہ بین الاقوامی درجہ بندی میں بھی منفی اثر ڈالے ہیں۔اجلاس میں وسیع اتفاق رائے پایا گیا کہ ملک میں قابلِ بھروسہ، قابلِ موازنہ اور بروقت صنفی اعدادوشمار کی پیداوار کے لیے ایک باضابطہ عبوری نظام لازم ہے۔ شرکاء نے متفقہ طور پر نظامِ اشتراکِ اعدادوشمار کی تیاری، ادارہ جاتی کرداروں کی وضاحت، معیاری ڈیفینیشنز اور میٹاڈیٹا رجسٹری کے قیام کو اولین ترجیح قرار دیا تاکہ صنفی اعدادوشمار بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہوں۔قابلِ عمل اقدامات میں تکنیکی ماہرین کی ٹیم کا قیام شامل ہے جو شماریاتی بیانات کی تعریفیں، شعبہ وار درجہ بندی اور میٹاڈیٹا تیار کرے گی۔ جامعات کو مخصوص تحقیقی منصوبوں اور ہدفی سرویز کی ذمہ داری دی جائے گی تاکہ خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت، اجرتی فرق، غیر معاوضہ نگہداشت، سیاسی نمائندگی، پیشہ ورانہ تقسیم اور ڈیجیٹل رسائی جیسے خلا پُر کیے جائیں۔ مزید برآں ادراکاتی اور انتظامی ڈیٹا کی باقاعدہ جمع آوری کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ وقت کے ساتھ موازنہ ممکن ہو اور شفافیت برقرار رہے۔فوری طور پر تکنیکی ٹیم ایک مسودہ نظامِ اشتراک اور ترجیحی اقدامات کا روڈ میپ تیار کرے گی جبکہ بیورو برائے شماریات اور جامعات چند ابتدائی ڈیٹاسیٹس اور چھوٹے تحقیقی منصوبوں کی نشاندہی کریں گے تاکہ عالمی اشاریوں کی ضروریات کے مطابق عملی نمونہ سامنے آسکے۔ نیشنل کمیشن برائے خواتین فالو اپ مشاورتی نشستیں منعقد کرائے گا تاکہ حتمی فریم ورک کو وزارتوں کی منظوری اور وسیع بین الاداراتی اتفاق رائے کے ساتھ نافذ کیا جا سکے۔شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مضبوط اور ہم آہنگ صنفی اعدادوشمار نہ صرف ملکی درجہ بندی بہتر کریں گے بلکہ پالیسی سازوں کو خواتین کی شرکت، حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے زیادہ مؤثر اور ہدفی پروگرام ترتیب دینے میں مدد دیں گے۔ اجلاس کے آخر میں کمیشن نے بیورو برائے شماریات، متعلقہ وزارتوں اور اکیڈمیا کا شکریہ ادا کیا اور باہم تعاون کے ذریعے صنفی اعدادوشمار کی معیاریت یقینی بنانے کا عہد کیا۔
